تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
شکن توپوں کی طرح داغتے اور اپنی بہادری پر مسرور ہوتے ہیں۔ قیصر قسطنطین نے روما کے پوپ کو لکھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مذہبی اختلاف کو مٹا دیں اور سب متحدو متفق ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں۔ میں بخوشی آپ کے عقائد کو تسلیم کرتا ہوں اور آئندہ قسطنطنیہ کا گرجا بھی آپ ہی کے ماتحت ہو گا۔ لہٰذا جس طرح بیت المقدس اور شام کی فتح کے لئے تمام برّاعظم یورپ میں جہاد کا اعلان کیا گیا تھا اور عیسائی مجاہدین جوق در جوق جمع ہو کر مسلمانوں کے مقابلے کو پہنچ گئے تھے اسی اہتمام کے ساتھ اب بھی قسطنطنیہ کے بچانے اور عثمانیہ سلطنت کو نیچا دکھانے کے لئے آپ کی طرف سے اعلان اور ترغیب ہونی چاہیے۔ قیصر قسطنطین کی یہ تجویز بہت کارگر اور مفید ثابت ہوئی۔ پوپ نے جس کا نام نکلسن پنجم تھا پوری سر گرمی کے ساتھ عیسائیوں کو جہاد پر آمادہ ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ ہسپانیہ (اندلس) کے شمالی صوبوں ۱؎ اگرچہ یہ فرقہ بھی کفریہ تعلیمات کا پابند ہے لیکن یہ عیسائیوں کا اصلاحی یا اعتدال پسند فرقہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا آغاز ۱۵۱۷ء میں ہوا۔ ۲؎ Catholic۔ قدیم رومی عیسائی مذہب کا پابند عیسائی فرقہ۔ یہ لوگ متشدد‘ کٹر اور راسخ العقیدہ کہلاتے ہیں۔ عیسائیوں کا تیسرا بڑا فرقہ آرتھو ڈوکس کہلاتا ہے۔ ۳؎ وہ آخری کھانا جو عیسیٰ u نیاپنے حواریوں کے ساتھ کھایا تھا عشائے ربانی کہلاتا ہے۔ اب یہ عیسائیوں کے ہاں عیسیٰ مسیحu کی یاد میں کھانے کی ایک رسم ہے جو بعض گرجوں میں ہفتہ میں ایک بار‘ بعض میں مہینہ میں ایک بار‘ بعض میں ہر تین ماہ کے بعد اور بعض میں سال بھر میں تین بار منائی جاتی ہے۔ اراگون و قسطلہ سے عیسائی مجاہدین کی زبردست اور کار آزمودہ فوجیں قسطنطنیہ پہنچیں۔ اسی طرح پوپ نے خود ایک زبردست فوج اپنے ایک نائب کارڈ نیل کی ماتحتی میں جہازوں پر روانہ کی۔ وینس اور جنیوا کی بحری طاقتیں اور بری فوجیں بھی قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔ ادھر قسطنطین نے شہر قسطنطنیہ کی فصیل کو مضبوط اور بندرگاہ کو حفاظتی سامانوں سے محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ خاص شہر قسطنطنیہ کی آبادی میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی موجود تھے۔ باشندوں سے چندے وصال کئے گئے اور عام طور پر عیسائیوں کو ترغیب دی گئی کہ اب وہ آرام طلبی کو چھوڑ کر شہر کی حفاظت اور دشمن کے حملہ کی مدافعت میں اپنی تمام طاقتیں صرف کر دیں۔ یورپ کے عیسائی مؤرخ حتیٰ کہ اڈمنڈ اولیور اور ای ایس کریسی بھی جو اپنی بے تعصبی اور راست گفتاری کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے اپنے یورپی اور عیسائی تعصب سے مغلوب ہو جاتے ہیں یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سلطان محمد خان ثانی کے اس کارنامہ کو حقیر کر کے دکھائیں اور جس طرح ممکن ہو سلطان محمد خان ثانی کی ذات پر کوئی نہ کوئی الزام لگائیں۔ چنانچہ یہ لوگ قسطنطین کی فوج اور اس کی جنگی تیاریوں کو بیان کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کو سلطان محمد خان ثانی کی غیر معمولی شجاعت اور حیرت انگیز استقلال کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال سلطان محمد خان ثانی کے آفتاب سے زیادہ روشن کارنامے ان منصف مزاج عیسائی مورخوں نے بھی خون کے گھونٹ پی پی کر لکھے ہیں۔ سلطان محمد خان ثانی نے اپنے ایک ہوشیار آہنگر اربان نامی نومسلم کو جو ہنگری کا قدیم باشندہ اور اسلام قبول کرنے سے پیشتر قسطنطین کا نوکر رہ چکا تھا حکم دیا کہ وہ بڑی بڑی زبردست مار کی توپیں بنانا شروع کرے چنانچہ متعدد توپیں تیار ہوئیں جن میں بعض بہت ہی بڑی اور وزنی گولہ پھینکنے والی تھیں۔ چند سال پیشتر یعنی سلطان مراد