تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنا پڑا۔ ابھی سلطان ایشیائے کوچک کے انتظام سے فارغ نہ ہوا تھا کہ قیصر قسطنطین نے سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ سلطان مراد خان ثانی کے زمانے سے خاندان عثمانیہ کا ایک شہزادہ ارخان نامی ہمارے پاس نظر بند ہے اس کے اخراجات ضروریہ کے لئے جو رقم سلطانی خزانہ سے آتی ہے اس میں اضافہ کرو ورنہ ہم اس شہزادہ کو آزاد کر دیں گے اور وہ آزاد ہو کر تم سے ملک چھین لے گا۔ قیصر چونکہ سلطان محمد خان ثانی کو ایک کمزور طبیعت کا سلطان تصور کئے ہوئے تھا اس لئے اس نے اس دھمکی کے ذریعہ سلطان سے روپیہ اینٹھنا اور اس کود بانا چاہا۔ اگر واقعی سلطان محمد خان ایسا ہی کمزور اور پست ہمت ہوتا جیسا قیصر نے سمجھا تھا تو وہ ضرور ہی اس دھمکی سے ڈر جاتا۔ اور قیصر قسطنطین کے نہ صرف اسی بلکہ آئندہ مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن سلطان محمد خان ثانی‘ سکندر یونانی اور نپولین فرانسیسی سے زیادہ قوی قلب وارادہ کا مالک تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس طرح کام نہ چلے گا اور جب تک اس عیسائی سلطنت کا قصہ پاک نہ کر دیا جائے گا سلطنت عثمانیہ کا قیام و استحکام ہمیشہ معرض خطر ہی میں رہے گا۔ اس وقت سلطان نے قیصر کے ایلچیوں کو ٹال دیا اور کوئی صاف جواب نہ دیا۔ ایشیائے کوچک سے واپس آ کر سلطان محمد خان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہنی داس یا ہنی ڈیز بادشاہ ہنگری سے تین سال کے لئے صلح کا عہدنامہ کر لیا۔ اس عہدنامہ کے مکمل ہو جانے سے سلطان کو اپنی سلطنت کے شمالی حدود کی جانب سے اطمینان حاصل ہو گیا۔ اسی دوران میں ینگ چری فوج اور اس کے سرداروں کی طرف سے بدعنوانیاں ملاخطہ کر کے سلطان نے ان کو قرار واقعی سزائیں دے کر ان کی اصلاح کی۔ قیصر قسطنطین نے دوبارہ اپنے ایلچی ایڈریا نوپل میں سلطان کے پاس بھیجے اور پھر شہزادہ ارخان کے نفقہ کے اضافے ورنہ اس کے آزاد کر دینے کی دھمکی دی۔ اور نہایت سفیہانہ انداز سے اصرار کیا۔ اس کا جواب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ سلطان محمد خان ثانی نے ارخان کا نفقہ بالکل بند کر دیا۔ اور قیصر کے سفیروں کو نہایت ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوا کر قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ اب قیصر کی آنکھیں کھلیں اور اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں جس کو روباہ سمجھا تھا وہ درحقیقت شیر ہے۔ چونکہ قیصر قسطنطین اپنی شجاعت اور ہوشیاری میں ممتاز اور بہت باہمت شخص تھا۔ اس نے یہ دیکھ کر کہ مجھ کو سلطان محمد خان سے ضرور دو‘ دو ہاتھ کرنے پڑیں گے بلاتوقف جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔ قسطنطین کی روشن خیالی اور مآل اندیشی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے عیسائیوں کے دو بڑے بڑے گروہوں میں اتفاق پیدا کرنا ضروری سمجھا۔ اس زمانے تک عیسائیوں کا فرقہ پراٹسٹنٹ۱؎ پیدا ہوا تھا جس کو رومن کیتھولک۲؎ عیسائیوں سے بہت سخت اور اہم اختلاف ہے بلکہ اس زمانے میں تمام عالم عیسائیت عقیدہ کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم سمجھا جاتا تھا۔ ایک گروہ شہر روما کے پوپ کو اپنا پیشوا مانتا اور رومن چرچ کا ماتحت سمجھا جاتا تھا۔ دوسرا گروہ گریک چرچ یعنی یونانی گرجے کا پیرو اور قسطنطنیہ کے بشپ اعظم کو اپنا مذہمی پیشوا سمجھتا تھا۔ جس کی سرپرستی کا فخر قیصر قسطنطنیہ کو حاصل تھا۔ ان دونوں گروہوں میں عقیدہ کا کچھ بہت بڑا فرق نہ تھا۔ عشائے ربانی۳؎ میں رومن طریقے کے پیرو شراب کے ساتھ فطیری روٹی استعمال کرتے تھے اور قسطنطنیہ کے پیرو پادریوں کی وہی حالت تھی جو اس جہالت و تاریکی کے زمانے میں ہم اپنے پیشہ ور مولویوں کی دیکھ رہے ہیں کہ ذرا ذرا سی باتوں مثلاً آمین و رفع یدین پر کفر کے فتوے بلاتامل قلعہ