تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خان ثانی کے عہد حکومت سے سلطنت عثمانیہ نے لڑائیوں میں توپوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ مگر ابھی تک یہ کوئی بہت کار آمد آلہ جنگ نہ تھا قلعوں کی دیواریں مسمار کرنے میں توپ کا مرتبہ منجنیق سے کچھ زیادہ بلند نہ تھا چنانچہ یہ توپیں جو سلطان محمد خان نے اربان سے تیار کرائیں اور جن کی نقل و حرکت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں بڑی دقت اور دشواری پیش آتی تھی۔ وہ ایسی تھیں کہ ایام محاصرہ میں صبح سے شام تک ان سے صرف سات آٹھ مرتبہ فائر ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اسی لئے محاصرہ قسطنطنیہ میں یہ کچھ بہت مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ اسی طرح قسطنطین نے بھی اپنے توپ خانہ کو بہت مکمل و مضبوط بنا لیا تھا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یورپ کے عیسائی سلاطین اور عثمانیہ سلاطین نے لڑائیوں میں توپ کے استعمال کو بہت ترقی دی اور یہ بہترین آلہ جنگ متصور ہونے لگا۔ سلطان محمد خان ثانی نے اپنی سلطنت کے ہر ایک حصہ میں نظم و انتظام اور امن و امان قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے اپنی کوشش و توجہ منعطف کی اور جب اس طرف سے اطمینان کلی حاصل ہو گیا تو قسطنطنیہ کے محاصرے کے لئے پچاس ہزار سوار اور بیس ہزار پیدل کی ایک پرجوش اور بہادر فوج منتخب کی۔ سلطان محمد خان ثانی کی فوج کا ستر ہزار ہونا کریسی نے بیان کیا ہے جو یقیناً مبالغہ سے خالی نہیں کیونکہ دوران محاصرہ میں جو ۶ اپریل سے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء تک یعنی سات ہفتے قائم رہا اس ستر ہزار فوج کے لئے سامان رسد کا مہیا ہونا ان حالات میں کوئی آسان کام نہ تھا۔ ۸۵۶ھ مطابق ۱۴۵۲ء سے طرفین کی جنگی تیاریاں علانیہ شروع ہو گئی تھیں قیصر قسطنطین نے قسطنطنیہ کے اندر سامان رسد اور غلہ وغیرہ حد سے زیادہ جمع کر لیا تھا۔ یورپ کے ملکوں سے نہ صرف جنگ جو لوگوں کے جہاز آ رہے تھے بلکہ سامان جنگ اور سامان خوردو نوش سے لدی ہوئی کشتیوں کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا۔ اٹلی اور دوسرے ملکوں سے معمار و انجینئر اور تجربہ کار جنگی سردار شہر قسطنطنیہ کی مضبوطی کے سامانوں کو مکمل کرنے کے لئے موجود ہو گئے تھے۔ سمندر کی جانب بندرگاہ کے دہانہ پر ایک مضبوط آہنی زنجیر اس طرح دونوں طرف باندھی گئی تھی کہ کسی جہاز کا بندرگاہ میں داخل ہونا ممکن نہ تھا۔ ہاں جب شہر والے خود چاہتے تھے کہ جہاز کو اندر آنے دیں تو اس زنجیر کو سمندر کی گہرائی میں ڈھیلا کر کے ڈال دیتے تھے۔ اور جہاز اندر داخل ہو جاتا تھا اس کے بعد زنجیر کو کھینچ دیا جاتا تھا اور پھر کسی غیر جہاز کا داخل ہونا غیر ممکن ہوتا تھا۔ شہر کی فصیل چودہ میل کے قطاع دائرہ میں نہایت مضبوط اور ناقابل تسخیر تھی سمندر کی جانب یعنی جس طرف بندرگاہ تھی فصیل کسی قدر نیچی اور کمزور تھی کیونکہ اس طرف سے کسی حملہ یا محاصرہ کی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ فصیل کے چاروں طرف گہری خندق جو ناقابل گذر تھی کھدی ہوئی تھی۔ فصیل کے باہر بھی جابجا مضبوط برجوں کے ذریعہ خندق و فصیل کی حفاظت کے لئے توپیں اور مضبوط فوجی دستے تیر اندازوں کے مامور تھے۔ پرانی تعمیر کے برجوں اور دیوار کے ان حصوں کو جو بھاری توپوں کے چڑھانے اور ان سے فائر کرنے کی حالت میں شکستہ ہو جانے کی استعداد رکھتے تھے ازسر نو مضبوط و مستحکم بنایا گیا۔ اس طرح قسطنطنیہ کی حفاظت کا جس قدر سامان اور اہتمام ہو سکتا تھا وہ بہ درجہ اتم پورا کر لیا گیا تھا۔ سلطان بایزید یلدرم نے آ بنائے باسفورس کے تنگ ترین مقام کے ایشیائی ساحل پر ایک قلعہ بنایا تھا۔ سلطان محمد خان ثانی نے جب قسطنطنیہ کی فتح کا ارادہ کیا تو اس قلعہ کے