تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک غلطی تھی اس زمانے میں وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا اور اب اکیس بائیس سال کا نوجوان تھا۔ یہ چھ سال اس نے کھیل کود میں نہیں گزارے تھے بلکہ وہ حکومت و سلطنت کی قابلیت کے بڑھانے میں برابر ترقی کرتا رہا تھا۔ عالموں اور روحانی لوگوں کی صحبتوں نے اس کے اخلاق اور قوت ارادہ کو بہت کچھ پختہ کر دیا تھا۔ یورپی مؤرخ عام طور پر اس کو اپنے صغیر سن سوتیلے بھائی کا قاتل تباتے ہیں مگر وہ اپنی اس غلط بیانی میں اس لیے معذور ہیں کہ محمد خان ثانی قسطنطنیہ کا فاتح ہے اور اس کو ملزم قرار دینا شاید عیسائی مورخ ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ینگ چری فوج کے سردار نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس کا بھی سب کو اقرار ہے کہ سلطان محمد خان نے اس سردار کو قصاص میں قتل کرایا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس سردار نے محمد خان ثانی کے حکم سے اس کو قتل کیا تھا لیکن سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سلطان محمد خان کو سردست اس چھوٹے بچے سے کسی قسم کا بھی کوئی اندیشہ نہ تھا۔ وہ اپنی تخت نشینی کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اس لڑکے کی جان لینے کی تدابیر عمل میں لا سکتا تھا۔ اس شیر خوار بچے کو تخت نشین کرنے کا کسی رکن سلطنت کو مطلق خیال تک بھی نہیں آیا تھا بلکہ سب ایڈریا نوپل میں محمد خان کا انتظار کر رہے تھے۔ ینگ چری فوج کا سردار ایشیائے کوچک سے سلطان محمد خان کے ساتھ نہیں آیا تھا بلکہ پہلے ہی سے ایڈریا نوپل میں موجود تھا۔ اگر یہ کام سلطان محمد خان کو کرانا تھا تو وہ اپنے ان سرداروں میں سے کسی کو اس کام پر مامور کرتا جو اس کے ساتھ ایشیائے کوچک سے آئے تھے اور جن پر اس کو ہر طرح کا بھروسہ تھا۔ ایڈریا نوپل میں آتے ہی ایک ایسے سردار کو جو اس کے لئے کوئی مانوس شخص نہ تھا یہ ظالمانہ حکم دینا معمولی احتیاط کے بھی خلاف تھا۔ پھر یہ کہ وہ سرادر جب اپنے اس ناشدنی کام کی پاداش میں قتل کیا گیا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اس راز کو فاش نہ کیا۔ سروین شہزادی یعنی محمد خان کی سوتیلی ماں خود ان لوگوں میں شامل تھی جو تخت نشین کی مبارک باد دینے آئے سلطان محمد خان ثانی کی آئندہ زندگی میں اس قسم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ اور اس باحوصلہ‘ نیک دل اور باخدا سلطان سے ہرگز اس قسم کی احمقانہ حرکت کی توقع نہیں ہو سکتی بات دراصل یہ ہے کہ ینگ چری فوج چونکہ سلطنت عثمانیہ کی بڑی لاڈلی فوج سمجھی جاتی تھی اس لئے اس فوج اور اس فوج کے سرداروں میں عام طور پر خود سرائی و خود سری کے علامات پیدا ہونے لگے تھے۔ سلطان مراد خان ثانی کے زمانے میں بھی ان لوگوں سے اس قسم کی حرکات سرزد ہو چکی تھیں‘ اس نوجوان سلطان کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اس سردار نے اسی قسم کا احسان اس پر کرنا مناسب سمجھا یہی دھوکا قسطنطنیہ کے قیصر قسطنطین کو ہوا جس کی وجہ سے اس کو قسطنطنیہ اور اپنی جان دینی پڑی تفصیل اس اجمال کی آگے آتی ہے۔ ۸۵۲ھ میں سلطان مراد ثانی سے تین سال پیشتر قیصر جان پلیلیوگس کے فوت ہونے پر قیصر قسطنطین دوازدہم قسطنطنیہ میں تخت نشین ہوا تھا۔ قسطنطین دوازدہم بھی اپنے پیشرو کی مانند خوب چالاک و چوکس آدمی تھا اس نے سلطان مراد ثانی کی وفات اور سلطان محمد خاں ثانی کی تخت نشینی پر ایشیائے کوچک کے سرکش اور باغیانہ خیالات رکھنے والے امیروں کو سہارا دے کر فوراً ایک بغاوت برپا کرا دی جس کے سبب سلطان محمد خان کو ایشیائے کوچک میں جا کر باغیوں کو ٹھیک اور وہاں کے انتظام کو درست