تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دشمن نے زہر دیا ہو۔ سلطان مراد خان ثانی کو بھی ملال ہوا اور چوتھے لڑکے کو جو سب سے بڑا تھا اور جس کا نام جارج کسٹرائٹ تھا بہ نظر احتیاط خاص اپنے سلطانی محل میں پرورش دینے لگا۔ سلطان کو اس کا بہت خیال رہتا تھا۔ چنانچہ اس کو بطور ایک اسلامی بچہ کے شہزادوں کی طرح تربیت دی گئی۔ جب یہ لڑکا جارج کسٹرائٹ اٹھارہ سال کا ہو گیا تو سلطان نے اس کو ایک فوجی دستہ کی سرداری سپرد کی۔ اس نے نہایت ہوشیاری اور خوبی کے ساتھ اپنی مفوضہ خدمات کو انجام دیا۔ اب وہ ایک پر جوش مسلمان سردار تھا۔ سلطان نے جارج کسٹرائٹ کا نام سکندر بیگ رکھا۔ اور وہ سکندر بیگ اور لارڈ سکندر بے کے نام سے مشہور ہوا۔ ۸۳۶ھ میں اس کے باپ جان کسٹرائٹ کا البانیہ میں انتقال ہوا اس وقت سکندر سلطانی خدمات اور بعض اضلاح کی حکومت پر مامور تھا۔ سلطان نے اس کو اس کے باپ کی جگہ فرماں روائے البانیہ مقرر کرنا مناسب نہ سمجھا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ البانیہ کے حاکم کی حیثیت سے بہت زیادہ اچھی حالت میں تھا سلطان اس کو اپنے بیٹے کی طرح سمجھتا اور وہ بڑے بڑے صوبوں کی فرماں روائی پر سلطان کی طرف سے مامور ہوتا رہتا تھا۔ سلطان مراد خان ثانی کو بھول کر بھی اس بات کا خیال نہ آتا تھا کہ سکندر بیگ کسی وقت بغاوت و سرکشی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ۸۴۷ھ میں ترکی فوج کو جب ہنی داس کے مقابلے میں شکست حاصل ہوئی تو سکندر بیگ نے اپنے آبائی ملک البانیہ پر بزور قبضہ کر لینے کا مصمم ارادہ کیا۔ اور وہ یکایک سلطانی میر منشی کے خیمے میں گھس گیا اور اس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے زبردستی البانیہ کے صوبہ دار کے نام اس مضمون کا فرمان لکھایا کہ تم سکندر بیگ کو جو سلطان کی طرف سے بطور وائسرائے تمہارے پاس پہنچتا ہے۔ البانیہ کے دارالسلطنت اور تمام علاقے کا چارج دے دو۔ یہ فرمان لکھا کر اور مہر سلطانی سے بھی مزین کرا کر اس میر منشی کو قتل کر دیا اور وہاں سے نکل کر سیدھا البانیہ کے دارالسلطنت کی طرف چل دیا۔ تو وہاں کے صوبہ دار نے بلا تامل اس کو البانیہ کی حکومت سپرد کر دی اور رعایا نے اطاعت قبول کر لی۔ البانیہ پر اس طرح قابض ہونے کے بعد اس نے باشندگان البانیہ میں اعلان کیا کہ میں دین اسلام سے مرتد ہو کر دین عیسوی قبول کرتا ہوں اور آئندہ تمام تر کوشش اس امر میں صرف کروں گا کہ اپنے ملک کو ترکوں کی ماتحتی سے آزاد رکھوں اس اعلان کے سنتے ہی عیسائیوں میں عید ہو گئی اور البانیہ کے اندر یک لخت ترکوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ جس قدر ترک وہاں موجود تھے عیسائیوں نے سب کو قتل کر ڈالا۔ اور سکندر بیگ البانیہ کا خود مختار فرماں روا بن گیا۔ سکندر بیگ نے چونکہ خاص سلطانی محل میں رہ کر اعلیٰ سے اعلیٰ جنگی تربیت حاصل کی تھی اور سلطانی قرب نے اس کو ذی حوصلہ اور باہمت بنا دیا تھا۔ شہزادوں کی طرح رہنے کے سبب وہ ترکوں کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا خود نہایت ذہین و ذکی اور جری بھی تھا۔ نیز البانیہ کے پہاڑی ملک ہونے کے سبب وہاں کے راستے بھی چونکہ سخت دشوار گزار تھے اور حملہ آور فوج کا اس ملک میں داخل ہونا آسان کام نہ تھا ان سب وجوہات نے جمع ہو کر سکندر بیگ کو البانیہ میں فرمان روا بنا دیا۔ ادھر سلطان مراد خان ثانی کو دوسرے مکروہات سے ایسی فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنی مکمل توجہ کے ساتھ اس کے استیصال پر آمادہ ہوتا۔ کئی مرتبہ البانیہ پر چڑھائیاں ہوئیں لیکن سکندر بیگ کی غیر معمولی بہادری اور غیر معمولی قابلیت جنگی کے سبب سلطانی فوجوں کو ناکام واپس آنا پڑا۔ سکندر بیگ نے البانیہ میں سلطانی فوج کے مقابلے میں ایسی ایسی حیرت