تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چند مہینے کی کوشش کے بعد سلطان مراد خان ثانی نے عیسائی باغیوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر حدود سلطنت کو پہلے سے زیادہ وسیع اور مضبوط کر کے دوبارہ پھر خلوت نشینی اور زہد و عبادت اختیار کر کے اپنے بیٹے محمد خان کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا۔ محمد خان کے دوبارہ تخت نشین ہونے کے بعد ینگ چری فوج نے اپنی تنخواہوں اور وظیفوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا اور جب ان کے اس نامناسب مطالبہ کے پورا کرنے میں پس و پیش ہوا تو انہوں نے بغاوت کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور لوٹ مار پر آتر آئے۔ اس طرح فوج کے خود سر ہونے سے سلطنت عثمانیہ میں دوبارہ سخت خطرناک اور نہایت پیچیدہ حالات پیدا ہو گئے۔ اراکین سلطنت نے یہ رنگ دیکھ کر دوبارہ سلطان مراد خان کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ بغیر آپ کی توجہ کے حالات درست نہ ہوں گے۔ چنانچہ سلطان مراد کو مجبوراً پھر اپنے خلوت خانے سے نکلنا اور ایشیائے کوچک سے ایڈریا نوپل آنا پڑا۔ یہ ۸۴۹ھ کا واقعہ ہے۔ جب سلطان مراد خان ثانی ایڈریا نوپل پہنچا تو فوج اور رعایا نے اس کا نہایت شاندار اور پرتپاک خیر مقدم کیا۔ اس مرتبہ تخت پر جلوس کرنے کے بعد سلطان مراد خان نے اپنے بیٹے محمد خان کو جو سال بھر کے اندر دو مرتبہ تخت نشین ہو چکا تھا ایشیائے کوچک میں اس لیے بھیج دیا کہ وہ وہاں رہ کر سلطنت کے متعلق زیادہ تجربہ حاصل کرے۔ تخت پر جلوس فرمانے کے بعد سلطان مراد خان نے بغاوت و سرکشی کے اماموں کو گرفتار کرا کر خوب سزائیں دیں اور ملک کے نظم و نسق میں مصرورف ہو کر اب تیسری مرتبہ تخت کا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ مراد خان ثانی نے اس مرتبہ عنان سلطنت ہاتھ میں لے کر عیسائیوں کو پھر سر اٹھانے کا موقعہ نہیں دیا۔ لیکن بلاوجہ اس نے کسی کو ستایا بھی نہیں۔ شاہ قسطنطنیہ اگرچہ اپنی شرارتوں اور فساد انگیزیوں کے سبب عثمانیوں کا سب سے بڑا دشمن اور سب سے زیادہ منبع فساد تھا اور ساتھ ہی اس کا قلع قمع کر دینا بھی مراد کے لیے شاید کچھ زیادہ دشوار نہ تھا۔ لیکن اس نے اس کے حال پر رہنے دیا اور کوئی تعرض نہیں کیا۔ ۸۵۲ھ میں ہنی داس مذکور نے پھر عیسائی فوجیں فراہم کر کے ترکوں کے استیصال کی تیاریاں کیں اور اسی طرح عیسائی فوجیں فراہم ہوئیں جیسے کہ اس سے پہلے کئی مرتبہ ترکوں کے خلاف جمع ہو چکی تھیں۔ اس مرتبہ مقام کسودا میں معرکہ عظیم برپا ہوا اور سلطان مراد خان ثانی نے اپنے اس پرانے حریف کو تین دن کی لڑائی کے بعد شکست فاش دے کر بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا اور سلطنت عثمانیہ کی وسعت میں اور اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان ثانی کا بہت سا وقت البانیہ کا فساد مٹانے میں صرف ہوا۔ لیکن وہ اپنی وفات یعنی ۸۵۵ھ تک اس فساد کا بکلی استیصال نہ کر سکا۔ البانیہ کے اس فساد کا حال اس طرح ہے کہ صوبہ البانیہ کو اگرچہ ترکوں نے بہت عرصہ پہلے فتح کر لیا تھا مگر اس صوبہ پر وہیں کا قدیم فرماں روا خاندان حکومت کرتا تھا جو ترکوں کا خراج گذار اور ہر طرح ماتحت تھا۔ جان کسٹرائٹ والی البانیہ نے سلطان مراد خان ثانی کے تخت سلطنت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے آپ کو مور دالطاف سلطانی بنانے کے لیے اپنے چار خورد سال بیٹے سلطان کی خدمت میں اس لیے بھیج دیئے تھے کہ وہ بطور یرغمال سلطان کے پاس رہیں اور سلطان ان کو اپنی ینگ چری فوج میں داخل کرنے کے لیے تربیت دے۔ ایڈریا نوپل کی تربیت گاہ میں اتفاقاً تین چھوٹے لڑکے بیمار ہو کر مر گئے۔ یہ خبر سن کر جان کسٹرائٹ والی البانیہ نے اپنے بیٹوں کے اس طرح فوت ہونے کو شبہ کی نظر سے دیکھا اور سلطان کو لکھا کہ میرے بیٹوں کو ممکن ہے کہ کسی میرے