تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصروف ہو گئے عیسائیوں کی فوج کے میسرہ میں ولیشیا کی فوج تھی ہنگری کے انتخابی سپاہی میمنہ پر مامور کیے گئے۔ کارڈنل جولین کے زیر اہتمام عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر عظیم تھا۔ بادشاہ ہنگری اپنے ملک کے سرداروں اور بہادر سواروں کے ساتھ قلب لشکر میں تھا پولینڈ کی فوج سب سے پیچھے ایک مشہور بشپ کے زیر کمان تھی۔ ہنی داس اس تمام لشکر عظیم کا سپہ سالار اعظم تھا۔ سلطان مراد خان ثانی نے بھی اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کیا اور اس صلح نامہ کی نقل کر کے نیزہ کی نوک پر رکھ کر اپنا علم بنایا جو شاہ ہنگری نے لکھ کر سلطان مراد خان کو دیا تھا۔ ۱۰ نومبر کو وارنا کے میدان میں یہ لڑائی شروع ہوئی جب کہ دو مہینے اور دس روز عیسائیوں کو عہد نامہ توڑے اور سلطنت عثمانیہ کے شہروں کو برباد کرتے ہوئے گذر چکے تھے۔ ہنی داس نے داہنی طرف سے عثمانی فوج کے ایشیائی دستوں پر اس زور شور کا حملہ کیا کہ ترکی لشکر کے پائوں اکھڑ گئے دوسری طرف والیشیا والوں نے بھی اسی طرح پر جوش حملہ کیا اور عثمانی فوج کا دوسرا بازو بھی قائم نہ رہ سکا۔ سلطان مراد خان ثانی جو اپنی رکابی فوج کے ساتھ پشت لشکر پر کھڑا ہوا یہ رنگ دیکھ رہا تھا سخت مضطرب ہوا اسی اثنا میں ہنگری کے بادشاہ لیڈ سلاس نے قلب عثمانی پر نہایت سخت حملہ کیا۔ اور صفوں کو چیرتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا جہاں سلطان مراد خان ابھی تک اپنی جگہ پر قائم اور اپنی فوج کی ہزیمت اور عیسائیوں کے زبردست حملوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ سلطان کو اپنی شکست فاش کا کامل یقین ہو چکا تھا اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ گھوڑا بھگا کر میدان جنگ سے اپنی جان بچا کر لے جائے یا دشمنوں کے لشکر پر حملہ آور ہو کر جام شہادت نوش کرے کہ سامنے سے لیڈ سلاس شاہ ہنگری سلطان کو بڑے کبرو نخوت کے ساتھ اپنے مقابلہ پر للکارتا ہوا نمودار ہوا۔ سلطان نے فوراً کمان میں ایک تیر جوڑ کر مارا جس سے شاہ ہنگری کا گھوڑا زخمی ہو کر گر پڑا اور نیگ چری فوج کے ایک بوڑھے سپہ سالار خواجہ خیری نے فوراً آگے بڑھ کر لیڈ سلاس کا سر کاٹ لیا۔ اور ایک نیزہ کی انی پر رکھ کر اس عہد نامہ کے ساتھ ہی بلند کر دیا۔ شاہ ہنگری کے اس کٹے ہوئے سر کو دیکھ کر عیسائی لشکر میں ابتری اور ہل چل مچ گئی اور وہ ترک جو پسپا ہوتے چلے جا رہے تھے اب ہمت کر کے آگے بڑھنے لگے۔ ہنی داس نے اس سر کو دیکھ کر اس کے چھیننے کی کوشش میں کئی زبردست حملے سلطانی لشکر کے اس حصہ پر کیے جہاں شاہ ہنگری کا وہ سر نیزہ پر رکھا ہوا تھا مگر اس کو ہر مرتبہ شکست ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے عیسائیوں سے میدان خالی کرا لیا۔ اس لڑائی میں کارڈنل جولین بھی جو پوپ کا نائب اور عیسائی مجاہدین کا سپہ سالار اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا مارا گیا۔ بشپ اور دوسرے تمام سردار بھی اس لڑائی میں مقتول ہوئے۔ ایک ہنی داس اپنی جان بچا کر میدان سے بھاگا۔ ہنگری کی تمام فوج ترکوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئی۔ اس فتح مبین کے بعد عثمانی فوج نے سرویا کو فتح کر کے اپنی حکومت میں شامل کیا اسی طرح بوسینیا بھی مفتوح اور وہاں کا شاہی خاندان نیست و نابود ہو کر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوا۔ عیسائیوں کی اس عہد شکنی کا بعض عیسائی خاندانوں پر یہ اثر پڑا کہ سرویا اور بوسنیا میں بہت سے عیسائی خود بخود مسلمان ہو گئے۔ سلطان مراد خان نے اپنی طرف سے مذہب کے معاملے میں کسی کو بھی مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس نے اپنی تمام عیسائی رعایا کو مثل دوسرے سلاطین عثمانی کے وہی آزادانہ حقوق دے رکھے تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔