تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوئے اور دونوں بادشاہوں نے قسمیں کھائیں کہ اس عہد نامہ کی پابندی کو احکام مذہبی کی طرح ضروری سمجھیں گے۔ وریا ڈینوب اس عہد نامہ کے بموجب سلطان کی عملداری کی حد قرار دیا گیا۔ اس طرح ۱۲ جولائی ۱۴۴۴ء مطابق ۸۴۸ھ کو دس برس کے لیے سلطان مراد خان ثانی اور عیسائیوں کے درمیان صلح قرار پا گئی۔ اس صلح نامہ کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہی سلطان مراد خان نے یہ سمجھ کر کہ اب دس سال کے لیے امن و امان قائم رہے گا۔ نیز اپنے بیٹے کی وفات کے سبب افسردہ خاطر ہو کر سلطنت کو چھوڑ دینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے دوسرے بیٹے محمد خان کو ایڈریا نوپل میں تخت نشین کیا۔ محمد خان چونکہ بہت ہی نو عمر تھا۔ اس لیے تجربہ کار اور بہادر وزیروں اور سپہ سالاروں کو اس کا مشیر بنایا اور خود ایشیائے کوچک میں جا کر درویشوں اور زاہدوں کی مجلس میں شریک ہوا اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے لگا۔ سلطان مراد خان ثانی کی تخت سلطنت سے دست برداری اور ایک نو عمر شہزادے محمد خان کی تخت نشینی کا حال سن کر عیسائیوں کے دہان حرص میں پھر پانی بھر آیا اور انہوں نے اس موقعہ کو بہت مناسب سمجھ کر عہد شکنی پر آمادگی ظاہر کی اور ارادہ کیا کہ ترکوں کی نسلوں کو اس وقت یورپ سے نسیت و نابود کر دیا جائے۔ ہنگری کا بادشاہ لیڈ سلاس جس نے ابھی چند روز ہوئے قسم کھائی تھی۔ اور عہد نامہ پر دستخط کر کے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اس کی پابندی مذہبی احکام کی طرح کروں گا۔ عہد شکنی میں متامل تھا۔ لیکن پوپ اور اس کے نائب کارڈنل جولین نے اس کو یقین دلا کر کہ مسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان کا نباہنا گناہ ہے اور عہد شکنی موجب ثواب ہو گی اس کو آمادہ کر لیا۔ ادھر ہنی داس سپہ سالار ہنگری بھی اس قدر جلد عہد نامہ کے توڑنے کو موجب رسوائی سمجھتا تھا۔ لیکن اس کو دربار ہنگری کی طرف سے لالچ دیا گیا کہ بلگیریا کو فتح کر کے تم کو وہاں کا بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ بھی رضا مند ہو گیا۔ ابھی صلح نامہ کو لکھے ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کے توڑنے پر عیسائی متفق ہو گئے۔ سرویا سے ترک سپاہی عہد نامہ کی شرائط کے موافق جا رہے تھے اور سرویا کا تمام علاقہ ترکی سپاہ سے خالی ہو رہا تھا۔ اس تخلیہ کا چند روز انتظار کیا گیا اور عہد نامہ کی تحریر سے پورے پچاس دن کے بعد یکم ستمبر ۱۴۴۴ھ مطابق ۸۴۸ھ کو ہنگری کی فوجوں نے بڑھ کر بے خبر ترکی سرحدی چوکیوں کی فوج پر حملہ کیا اور بلگیریا کے راستے بحرا سود کے کنارے پہنچ کر وہاں سے جنوب کی جانب متوجہ ہو کر شہر وارنا کا محاصرہ کر لیا اور بالآخر وارنا کو ہنی داس نے فتح کر لیا۔ اس سے پہلے عیسائیوں نے بڑی بے رحمی اور سفاکی مسلمانوں کے قتل عام میں دکھائی۔ عیسائیوں کی اس فوج کشی اور عہد شکنی کا حال فوراً ایشیائے کوچک میں سلطان مراد ثانی سے جو ترک سلطنت کے بعد گوشۂ نشین ہو چکا تھا جا کر بیان کیا گیا۔ اور اس سے استدعا کی گئی کہ آپ گوشہ عزلت سے قدم باہر نکالیں اور سلطنت عثمانیہ کو بچائیں۔ چنانچہ مراد خان ثانی بلا تامل ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے وارنا کی طرف روانہ ہوا۔ عیسائی فتح مند لشکر وارنا کے قریب میدان میں خیمہ زن تھا۔ اور اپنی فتح مقصدوری کا اس کو کامل یقین تھا کہ ہنی داس کے مخبروں نے آ کر اس کو خبر سنائی کہ سلطان مراد خان گوشہ عزلت سے نکل کر اور چالیس ہزار بہادر سپاہیوں کو لے کر خود مقابلہ پر آ پہنچا ہے اور یہاں سے چار میل کے فاصلہ پر آ کر خیمہ زن ہوا ہے یہ سنتے ہی ہنی داس اور شاہ ہنگری نے مجلس مشورت منعقد کی اور اس کے بعد صفوف جنگ کی آراستگی میں