تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سپہ سالاری کا منصب حاصل کر لیا۔ اور ترکوں کے خلاف فوجیں لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے صوبہ ٹرانسلونیا سے ترکوں کو خارج کر دیا۔ ترکی جرنیل مزید بیگ جو اس نواح میں عامل و منتظم تھا۔ مع اپنے بیٹے کے مارا گیا۔ اور بیس ہزار ترکی فوج میدان میں کھیت رہی۔ جو ترک زندہ قید ہوئے تھے ان کے ساتھ ہنی داس نے یہ سلوک کیا کہ جب اس فتح کی خوشی میں ہنگری کے اندر ضیافتیں ہوتی تھیں تو ضیافت کے موقعہ پر ان ترک قیدیوں کی ایک تعداد لے جا کر ان لوگوں کے سامنے قتل کی جاتی تھی جو اس خوشی کی تقریب میں شریک ہوتے تھے۔ اس طرح گویا خوشی کے جلسوں میں ان ترک قیدیوں کا قتل کرنا ایک دل چسپ سامان تفریح سمجھا گیا تھا۔ سلطان مراد خان کے پاس ادھر اس مذکوہ شکست کی خبر پہنچی ادھر ایشیائے کوچک سے خبر آئی کہ قونیہ میں بغاوت کا جھنڈا بلند ہو گیا ہے جو سلطان کے لیے بے حد موجب خطر ہے۔ سلطان مراد خان نے ہنی داس اور ہنگریوں سے بدلہ لینے کے لیے اسی ہزار فوج دے کر اپنے ایک سپہ سالار کو روانہ کیا اور خود ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا یہ واقعہ ۸۴۷ھ کا ہے۔ ترکوں کی اس فوج کو شکست دینے اور ترکوں کو برّاعظم یورپ سے نکالنے کے لیے یورپ میں اب کی مرتبہ ایسا جوش پیدا ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ ہنگری کا بادشاہ لیڈ سلاس اور ہنگری کا سپہ سالار ہنی داس اس قدر مشہور ہو گئے تھے اور ان کی بہادری کے افسافے اس طرح یورپ میں ہر جگہ پہنچ گئے تھے کہ ہر ایک ملک کے عیسائی نے ان کی فوج میں شریک ہونے اور مجاہد کہلانے کا شوق ظاہر کیا۔ روما کے پوپ جان اور اس کے سفیر کار ڈنیل جولین نے مجاہدین کے تیار کرنے اور اپنے وعظوں سے عیسائیوں کو اس لڑائی میں شریک کرنے کی بے حد ترغیب دی۔ ہنگری‘ سرویا‘ ولیشیا‘ پولینڈ‘ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس‘ آسٹریا‘ بوسینا‘ البانیہ وغیرہ کی فوجیں ہنی داس کے جھنڈے کے نیچے آ کر جمع ہو گئیں۔ عثمانیوں کی فوج سے جب مقابلہ ہوا تو عیسائیوں کی اس بے شمار فوج نے ترکی فوج کو شکست دی۔ چار ہزار ترک گرفتار اور بہت سے شہید ہوئے۔ ہنی داس نے تعاقب کر کے شہر صوفیہ پر قبضہ کر لیا۔ اور تمام رومیلیا کو تاخت و تاراج کر کے اور بے شمار مال غنیمت اور قیدی لے کر اپنے ملک کو واپس ہوا۔ حالانکہ اس کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ایڈریا نوپل پر قبضہ کر لیتا۔ مگر ایڈریا نوپل پر حملہ آور ہونے کی اس کو جرأت نہ ہوئی۔ سلطان مراد خان ثانی نے اس شکست اور اپنے علاقوں کی تباہی کا حال ایشیائے کوچک میں سنا۔ وہ بہت جلد ۸۴۷ھ میں ایشیائے کوچک کی بغاوت فرو کرنے کے بعد ایڈریا نوپل میں آیا اور عیسائیوں سے انتقام لینے کی تدبیر سوچنے لگا۔ انہی ایّام میں سلطان کا بڑا بیٹا علائو الدین فوت ہوا جس سے سلطان کو سخت صدمہ پہنچا اور اس کا دل سلطنت و حکومت سے برداشتہ ہو گیا۔ گذشتہ جنگ میں سلطان کا بہنوئی محمد چلپی ہنی ڈیز (ہنی داس) کی لڑائی میں گرفتار ہو گیا تھا لہٰذا اس کی بہن اور دوسرے عزیزوں نے سلطان کو مجبور کیا کہ جس طرح ہو محمد چلپی کو آزاد کرایا جائے۔ چنانچہ سلطان کو خط و کتابت کا سلسلہ ہنگری والوں کے ساتھ جاری کرنا پڑا۔ آخر اسی سلسلہ خط و کتابت نے یہ صورت اختیار کی کہ سلطان صلح پر آمادہ ہو گیا۔ سرویا کی آزادی کو سلطان نے تسلیم کر لیا وہاں کے بادشاہ جارج کو بادشاہ مان کر اپنے حقوق بادشاہی اس پر سے اٹھا لیے ولیشیا کا صوبہ ہنگری کو دے دیا اور ساٹھ ہزار ڈاکٹ زرفدیہ بھیج کر محمد چلپی کو قید سے آزاد کرایا۔ یہ عہد نامہ ہنگری اور ترکی دونوں زبانوں میں لکھا گیا۔ سلطان مراد خان ثانی اور لیڈ سلاس بادشاہ ہنگری کے اس پر دستخط