تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو شہرت اور حضرت خالد بن ولیدt کو جو عظمت دنیا میں حاصل ہے اس کا سبب بھی وہی بہادری ہے جو فطرت انسانی کے لیے محبوب و مرغوب چیز ہے۔ رستم‘ رہنی‘ حضرت خالد بن ولید ضض‘ سلطان صلاح الدین‘ نپولین عثمان پاشا وغیرہ شیر دل انسانوں کو دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں یکساں عزت و عظمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں یورپ کی جنگ عظیم کے زمانے میں جرمن کا ایک چھوٹا سا جنگی جہاز ایمڈن نامی بحر ہند اور بحرا لکاہل کی طرف نکل آیا تھا۔ اس جہاز نے عرصہ تک غیر معمولی بہادری اور جرأت کے نمونے دکھائے اور انگریزوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن جب اس کا کپتان گرفتار ہو کر انگلستان پہنچا ہے تو باشندگان انگلستان اس کی زیارت کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ اور اس کو نہایت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم جب شاہنامہ میں رستم کی بہادریوں کے حالات پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں رستم ایک پر ستارزادہ شغاد نامی کے ہاتھ سے ہلاک ہوا ہے تو ہمارا دل حزن و ملال سے لبریز ہو جاتا ہے۔ حسرت و اندوہ کا سب سے زیادہ اہم اور عظیم الشان مظاہرہ اس وقت معائنہ ہو سکتا ہے جب کہ کسی بہت بڑے بہادر کا انجام ناکامی کی شکل میں نمودار ہوا ہو غالباً سلطان بایزید خان یلدرم کا انگورہ کے میدان میں گرفتار ہو جانا بھی دنیا کا ایسا ہی عظیم الشان واقعہ ہے جس کے تصور سے بے اختیار قلب پر حسرت و اندوہ کا ہجوم چھا جاتا ہے۔ میدان انگورہ میں اگر تیمور کی شکست ہوتی تو یقیناً تیمور اور اس کے خاندان کو تو نقصان عظیم پہنچتا۔ لیکن عالم اسلام کو تیمور کی شکست سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ تھا کیونکہ مشرقی ممالک جو تیمور کے قبضے میں تھے وہ تیمور کے بعد بھی مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہتے ان کی نسبت یہ اندیشہ ہرگز نہ تھا کہ اسلامی ممالک کسی غیر مذہب کی حکومت میں شامل ہو جائیں گے لیکن سلطان بایزید خان یلدرم کی شکست سے عالم اسلام کو سخت نقصان پہنچا کیونکہ یورپ کی طرف اسلامی پیش قدمی رک گئی اور نیم مردہ یورپ پھر اطمینان و سکون کے سانس لینے لگا سلطان بایزید خان یلدرم اور تیمور کی اس جنگ میں اگر سلطان بایزید خان یلدرم کو فتح حاصل ہوتی تو چونکہ سلطان بایزید خان یلدرم کی فوج چوتھائی سے بھی کم تھی اس لیے یہ لڑائی ۴۶۳ھ کی اس لڑائی کی مانند سمجھی جاتی جو ایشیائے کوچک کے میدان ملا ذکرو میں ہوئی تھی جس میں سلطان الپ ارسلان سلجوقی نے مسلمانوں کی صرف بارہ ہزار فوج سے عیسائیوں کی دو تین لاکھ فوج کو شکست دی تھی یا پانی پت کی تیسری لڑائی سے مشابہہ ہوتی جو ۱۱۷۴ھ میں ہوئی جس میں مسلمانوں کی صرف اسی نوے ہزار فوج نے ہندئوں کی پانچ چھ لاکھ فوج کو شکست فاش دی یا جنگ کسوا اور جنگ نکوپولس کی فہرست میں داخل ہوتی کیونکہ ان تمام لڑائیوں میں تھوڑی تھوڑی فوجوں نے بڑی بڑی فوجوں کو شکست فاش دی تھی۔ غالباً جنگ نکوپولس پر ہی قیاس کر کے سلطان بایزید خان یلدرم نے اپنی قلت اور تیمور کی کثرت پر کوئی لحاظ نہیں کیا۔ مگر اس نے یہ نہ سوچا تیمور اور اس کی فوج بھی تو مسلمان ہی ہے۔ جن لڑائیوں میں غیر معمولی کثرت نے حیرت انگیز قلت سے شکست کھائی ان میں ہمیشہ بڑی فوج کفار کی اور چھوٹی فوج مسلمانوں کی ہوا کرتی تھی۔ لیکن جنگ انگورہ میں چونکہ دونوں طرف مسلمان تھے اس لیے اس میں کثرت کو قلت پر غالب آنا چاہیئے تھا چنانچہ غالب ہوئی۔ تیمور بھی اگرچہ چنگیزی قوم سے تعلق رکھتا تھا اور چنگیز خان ہی کی مانند بلکہ اس