تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے ایک بہادر سپاہی کی طرح بذات خود دشمن پر رستمانہ صفوف شکن حملے شروع کر دیئے اس کی بہادر فوج نے بھی اپنے سردار کی تقلید میں صف شکنی و حریف افگنی کا خوب حق ادا کیا۔ چنانچہ بایزید نے مغلوں کے قلب کی فوج کو اپنے سامنے سے ہٹا دیا۔ اور تیمور سرداروں کو بھگا دیا۔ اب سلطان بایزید خان یلدرم کا فرض تھا کہ وہ اپنے یمین ویسار کی فوجوں کا بندوبست کرتا اور اپنی جمعیت کو بطریق احسن ترتیب دے کر آگے بڑھتا۔ لیکن اس نے اپنے مقابل کی فوجوں کو بھگا کر بے تحاشا اسی سطح مرتفع پر حملہ کیا جہاں ابوبکر و سلطان حسین وغیرہ واپس ہو کر متمکن تھے۔ تیموری شہزادے اور تیموری سردار سلطان بایزید خان یلدرم کے اس حملہ کی تاب نہ لا سکے۔ سلطان بایزید خان یلدرم نے چشم زدن میں دشمن کے چھ زبردست سرداروں کو بے دخل کر کے اس ٹیلہ پر قبضہ کر لیا۔ تیمور شروع سے آخر تک بذات خود جنگ میں شریک نہیں ہوا لیکن میدان جنگ کے ہر گوشہ پر اس کی نظر تھی۔ اس نے اس بچھی ہوئی شطرنج میں اپنے جس مہرہ کو کمزور دیکھا اسے زور پہنچایا اور جہاں سے جس مہرہ کو پیچھے ہٹانا مناسب سمجھا‘ فوراً پیچھے ہٹایا غرض اس نے انتہائی دور اندیشی اور کمال حزم و احتیاط کے ساتھ میدان جنگ کا رنگ شام تک اپنے حسب منشا بنا لینے کی کوشش کی۔ سلطان بایزید خان یلدرم کو اس طرح فاتحانہ آگے بڑھا ہوا دیکھ کر اس نے اپنے تازہ دم دستوں کی مدد سے سلطان بایزید خان یلدرم کے میمنہ اور میسرہ پر یک لخت حملہ کرا کر سلطان بایزید خان یلدرم کو اس کی فوج کے بڑے حصے سے جدا کر دیا عین اسی وقت بہت سے مغلیہ دستے جو سلطان بایزید خان یلدرم کی فوج میں شامل تھے تیموری لشکر میں شامل ہو گئے۔ جس سے سلطان بایزید خان یلدرم کے لشکر کو سخت نقصان پہنچا۔ اب تیمور نے اپنی فوج کی کثرت تعداد سے فائدہ اٹھانے کی نہایت باموقعہ کوشش کی یعنی قرنا کے ذریعہ تمام فوج کو دشمن پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ سلطان بایزید خان یلدرم کا میمنہ اور میسرہ پہلے ہی مغلوں کی بے وفائی سے سخت مجروح اور کمزور ہو چکا تھا۔ اس عام حملہ آوری نے بایزید کے میمنہ اور میسرہ کو درہم برہم کر دیا۔ بایزید کا بیٹا مصطفیٰ مارا گیا۔ اس کا برادرزن یعنی عیسائی سردار بحالت تباہ فرار ہوا اور بایزید اپنے رکابی دستہ کے ساتھ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر گیا۔ بایزید اور اس کے جان نثاروں نے اس حالت میں شمشیر زنی کے جو جوہر دکھائے۔ وہ انہی کا حصہ تھا۔ بایزید کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جس طرف حملہ آور ہوتا تھا مغلوں کے ٹڈی دل کو دور دور تک پیچھے دھکیل دیتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسی نوبت پہنچی کہ بایزید حملہ آور ہو کر اور مغلوں کی صفوں کو چیر کر اس مقام تک پہنچ گیا۔ جہاں تیمور کھڑا ہوا اپنی فوج کو حملہ کی ترغیب دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی شروع ہو جانے پر جب کہ بایزید کے قریباً تمام جان نثار مارے جا چکے تھے یہ عثمانی شیر بھی کمندیں ڈال کر یا گھوڑے کے ٹھوکر کھانے سے گر جانے پر گرفتار کر لیا گیا۔ اور میدان انگورہ میں اسلامی دنیا کی وہ تمام امیدیں جو سلطان بایزید خان یلدرم کی ذات سے وابستہ تھیں دفن ہو گئیں۔ اگر فطرت مسخ نہ ہو گئی ہو تو انسان کا خاصہ ہے کہ وہ بہادری کی قدر کرتا اور بہادر انسان کو محبوب رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کہ ہر ایک ملک میں شیر کو جو انسان کا ہلاک کرنے والا جانور ہے عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ اس بات خواہاں رہتے ہیں کہ ان کو شیر سے تشبیہ دی جائے۔ حالانکہ بیل اور گھوڑا انسان کے بہت کام آتے ہیں مگر کوئی شخص اپنے آپ کو بیل یا گھوڑا کہلانا پسند نہیں کرتا۔ رستم کے نام کو