تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس لڑائی کے تفصیلی حالات اور مفصل کیفیت لکھنے کو اس لیے جی نہیں چاہتا کہ خاندان عثمانیہ کو جو ایک دین دار اور پابند مذہب خاندان تھا اس لڑائی نے سو گوار بنا دیا۔ لیکن فرائض تاریخ نگاری بھی ضرور پورے ہونے چاہئیں لہٰذا مختصر کیفیت سنئے۔ امیر تیمور نے صفوف لشکر کو اس طرح آراستہ کیا کہ میمنہ پر شہزادہ مرزا شاہ رخ کو افسر مقرر کیا۔ میمنہ کی اس فوج میں جن سرداروں کی فوجیں شامل تھیں ان کے نام یہ ہیں۔ امیر زادہ خلیل سلیمان‘ امیر سلطان شاہ‘ امیر رستم برلاس سونجک بہادر‘ موسی‘ توی بوغا امیر یاد گار وغیرہ۔ میمنہ کی فوج کے لیے امیر زادہ مرزا سلطان حسین کو ایک زبردست فوج کے ساتھ کمکی مقرر کیا۔ میسرہ میں امیر نور الدین جلائر۔ امیر برمذق برلاس‘ علی قوجین‘ امیر مبشر‘ سلطان سنجر برلاس۔ عمر ابن تابان وغیرہ اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ متعین تھے۔ میسرہ کی ان تمام فوجوں کا افسر اعلیٰ شاہزادہ میران شاہ کو مقرر کیا گیا تھا۔ میسرہ کی کمکی فوج امیر زادہ ابوبکر امیر جہاں شاہ برلاس‘ امیر توکل برلاس‘ پیر علی سلدوز کو سپرد کی گئی۔ قلب کی فوج کے داہنے حصے میں تاش تمورا غلن ازبک‘ امیر زادہ احمد جلال باورچی یوسف بابا حاجی سوجی‘ اسکندر ہندو بوغا‘ خواجہ علی ایروی‘ دولنتمور‘ محمد قوجین‘ ادریس قورچی وغیرہ شامل تھے۔ ان سرداروں کی پشت پر بیگ ولی‘ ایلچکدانی ہری ملک‘ ارغون ملک صوفی خلیل‘ ایسن تمور‘ شیخ تمور‘ سنجرو حسین و عمر بیگ پسران نیک روز‘ جون عربانی‘ بیروی بیگ قوجین‘ امیر زیرک برلاس وغیرہ امراء بطور کمکی مقرر ہوئے۔ قلب کے بائیں حصے کی سرداری امیر توکل قراقرا‘ علی محمود‘ شاہ ولی‘ امیر سونجک تنکری‘ بیزش خواجہ‘ محمد خلیل‘ امیر لقمان‘ سلطان برلاس‘ میرک ایلچی‘ پیر محمد‘ شنکرم‘ شیخ اصلان الیاس کپک خانی‘ دولت خواجہ برلاس‘ یوسف برلاس‘ علی قبچاق وغیرہ کو سپرد ہوئی۔ ان سرداروں کی کمکی فوج میں امیر زادہ محمد سلطان‘ امیر زادہ پیر محمد‘ اسکندر شاہ ملک‘ الیاس خواجہ امیر شمش الدین وغیرہ اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ شامل تھے۔ مذکورہ بالا تقسیم و ترتیب کے علاوہ نہایت زبردست چالیس دستے تیمور نے اپنی رکاب میں جدا محفوظ رکھے تاکہ لڑائی کے وقت جس حصہ فوج کو ضرورت ہو فوراً امداد پہنچائی جا سکے۔ اس پانچ چھ لاکھ بلکہ آٹھ لاکھ فوج کے علاوہ فیلان کوہ پیکر کی بھی ایک تعداد جن کی صحیح گنتی معلوم نہیں تیمور کے پاس اس جنگ میں موجود تھی۔ ان جنگی ہاتھیوں کی صف لشکر کے آگے ایستادہ کی گئی تھی۔ سلطان بایزید خان یلدرم کے پاس کوئی جنگی ہاتھی نہ تھا۔ سلطان بایزید خان یلدرم نے میسرہ کی فوج سلیمان چلپی کو سپرد کی۔ میمنہ کی فوج کا افسر اپنے عیسائی سالے یعنی برادرزن کو بنایا۔ خود قلب کو سنبھالا۔ اور اپنے پیچھے موسیٰ و عیسیٰ و مصطفیٰ اپنے تینوں بیٹوں کو رکھا۔ طرفین سے طبل جنگ بجا اور شیران غزندہ ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ غریو لشکر نے ارد گرد کے ٹیلوں اور پہاڑوں کو لرزا دیا۔ گھوڑں کی ٹاپوں سے فرش زمین نے غبار ہواگیر ہو کر ابرتیرہ کی صورت اختیار کر کے تمازت آفتاب کو کم کیا۔ مگر خود شمشیر اور سنان و زرہ نے ایک دوسرے سے ٹکرا کر چنگاریاں برسائیں۔ خون کے فواروں سے چھڑکائو شروع ہوا۔ بہادروں کی اگلی صفیں چشم زدن میں مردہ لاشیں بن کر بورئیے کی