تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلوار چلانے کا فخر حاصل ہو۔ سجمنڈ جو ترکوں کے طریق جنگ سے واقف اور زیادہ تجربہ کار تھا اس نے کہا کہ سب سے پہلے ترکوں کی بے قاعدہ اور نیم مسلح فوج کے دستے آگے بڑھیں گے آپ لوگ جو لوگ جو عیسائی لشکر کے لیے مایہ ناز ہیں اس لشکر کے مقابلہ پر تیار ہیں۔ جو سلطان بایزید خان یلدرم کے جان نثار اور سب سے زیادہ بہادر سپاہیوں پر مشتمل ہے اور جو ابتدائی مقابلہ کے بعد زبردست حملہ کرے گا۔ ڈیوک آف برگنڈی یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ مگر فرانس کے سرداروں یعنی لارڈ دی کورسی اور امیر البحر اور مارشل بوسی وغیرہ نے اصرار کیا کہ ہم ہرگز اس بات کو گورار نہیں کر سکتے کہ فرانس والوں سے پہلے ہنگری والے جنگ میں پیش قدمی کریں یہ پر غرور اور پرجوش الفاظ سن کر نوجوانوں نے خوشی کا ایک نعرہ بلند کیا اور اس جوش و غرور میں ان ترکی قیدیوں کو جو اب تک قتل نہیں کیے گئے تھے۔ فوراً قتل کر دیا۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہم پر بہت جلد کیسی مصیبت وارد ہونے والی ہے۔ سلطان بایزید خان یلدرم نے عیسائی لشکر کے قریب پہنچ کر ایسے موقعہ پر قیام کیا کہ عیسائی لشکر اور سلطانی لشکر کے درمیان زمین کا ایک بلند پشتہ حائل تھا۔ جس کی وجہ سے عیسائی لشکر سلطانی لشکر کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سلطان نے اپنی چالیس ہزار منتخب اور مسلح فوج کو میدان میں جما کر باقی بے قاعدہ فوج کے دستوں کو مختلف ٹولیاں میں آگے بڑھایا۔ ادھر سے فرانسیسی سواروں نے بطور ہر اول پیش قدمی کی اور سجمنڈ باقی فوج کو لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ فرانسیسی فوج نے ترکی بے قاعدہ دستوں کو کچل ڈالا اور نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ کر اس مرتفع ٹیلہ کی بلندی پر پہنچ گئے جہاں سلطان بایزید خان اپنی مسلح فوج کی خود سپہ سالاری کر رہا تھا بے قاعدہ ترکی دستوں نے جو فرانسیسیوں کے حملہ سے اپنی ایک تعداد کو قتل کرا کر منتشر ہو گئے تھے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور فوراً مجتمع ہو کر اور اپنی صفوں کو درست کر کے ان حملہ آور فرانسیسیوں کے عقب میں پہنچ کر حملہ کیا اس طرح عیسائی ہر اول یعنی فرانسیسی فوج جو سجمنڈ کے بڑے لشکر سے بہت دور آگے نکل آئی تھی اسلامی لشکر کے بیچ میں گھر گئی اور بہت زیادہ مقتول و اسیر ہوئی۔ بہت ہی تھوڑے سے آدمی کسی نہ کسی طرح بچ کر نکل بھاگے اور انہوں نے عیسائی لشکر کلاں کو فرانسیسی لشکر کی اس مکمل تباہی کا حال سنایا جس سے عیسائیوں کے فوجی سمندر پر مسلمانوں کی ہیبت طاری ہونے لگی۔ اس کے بعد بایزید خان نے عیسائیوں کے فوجی سمندر پر جو میدان میں حد نگاہ تک ایک نیستان کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ حملہ کیا۔ مسلمانوں کا یہ حملہ جس جوش اور خروش کے ساتھ ہوا ہے اس کا شایدان تجربہ کار اور منتخب جنگ جو عیسائیوں کو پہلے سے اندازہ نہ تھا۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سلطان بایزید خان یلدرم کا لشکر ایک آہنی گرز تھا۔ جس نے میلوں تک پھیلی ہوئی ریتے کی دیواروں کو اپنی پیہم ضربوں سے ریزہ ریزہ کر کے خاک میں ملا دیا۔ بویریا۔ آسٹریا اور ہنگری کی فوجوں نے جم کر اور ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وہ سب کھیرے ککڑی کی طرح مسلمانوں کی خون آشام تلواروں سے کٹ کر خاک و خون میں مل گئے اسی طرح جس نے قیام و قرار کو اختیار کیا طعمہ تیغ ہوا جو فرار پر آمادہ ہوا یا تو بچ کر نکل گیا یا فتح مندوں کے تعاقب سے اسیر ہو کر اپنے وجود پر افسوس کرنے لگا۔ غرض بہت ہی جلد لڑائی کا فیصلہ ہو گیا اور سلطان بایزید خان نے نکوپولس کے میدان میں عیسائیوں کے ایک زبردست اور ہر ایک اعتبار سے مکمل و مضبوط لشکر کو شکست فاش دی کہ اس سے