تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بڑھ گئے عیسائی اس میدان میں پہلے سے مقیم اور تازہ دم تھے۔ مسلمان یلغار کرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے اور دشوار گذار راستوں نے ان کو تھکا دیا تھا۔ عیسائیوں کے لیے یہ علاقہ نیا اور اجنبی نہ تھا کیونکہ اس علاقہ کے باشندے ان کے دوست اور ہم قوم وہم مذہب تھے اور ہر طرح معین و مدد گار تھے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ ملک بالکل غیر اور اجنبی تھا۔ جس روز شام کو سلطانی لشکر میدان میں پہنچا ہے اس کی شب میں دونوں لشکروں میں مجالس مشورت منعقد ہوتی رہیں عیسائیوں میں سے بعض سرداروں کی رائے ہوئی کہ اسی وقت رات کو شب خون مار کر مسلمانوں کا کام تمام کر دیا جائے۔ لیکن چونکہ عیسائیوں کو اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ اس لیے ان کے دوسرے سرداروں نے اس رائے کی محض اس لیے مخالفت کی کہ رات کی تاریکی میں مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو بچ کر نکل جانے اور بھاگنے کا موقعہ مل جائے گا حالانکہ ہم ان میں سے ایک متنفس کو ادھر عیسائیوں کی کثرت دیکھ کر مسلمان مرعوب تھے سلطان نے مجلس مشورت منعقد کی تو بعض سرداروں نے مشورہ دیا کہ بار برداری کے اونٹوں کی قطار فوج کے سامنے نصب کی جائے تاکہ زندہ فصیل کا کام دے سکے۔ اس سے دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ دشمن جب حملہ آور ہو گا تو اس کے گھوڑے اونٹوں کو دیکھ کر بدکیں گے اور اس طرح ان کی صفوں کا نظام قائم نہ رہ سکے گا اس رائے کو سن کر سلطان کے بڑے بیٹے بایزید یلدرم نے مخالفت کی اور کہا کہ یہ ضعف اور خوف کی علامت ہے ہم ایسی کمزور اور پست ہمتی پیدا کرنے والی تدبیر پر ہرگز عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہم کو دشمن سے کھلے میدان میں دو دو ہاتھ کرنے ہیں۔ غرض اسی قسم کی باتیں پیش ہوتی رہیں اور سلطان اپنی کوئی مستقل رائے قائم نہ کر سکا۔ ادھر سلطان نے دیکھا کہ ہوا بڑے زور سے چل رہی ہے دشمن کی پشت کی جانب سے ہوا کے جھونکے آتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے چہروں پر آندھی اور غبار کے تھپیڑے لگتے ہیں۔ یہ علامت مسلمانوں کے لیے بے حد نقصان رساں تھی اپنی قلت تعداد اور کمزوری کو دیکھ کر سلطان مراد نے خدائے تعالیٰ کی جناب میں دعا و التجا کرنی شروع کی صبح تک رو رو کر خدائے تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہا کہ الٰہی کفر و اسلام کا مقابلہ ہے تو ہمارے گناہوں پر نظر نہ کر بلکہ اپنے رسول عربی اکرم اور دین متین کی لاج رکھ لے ان دعائوں نے رحمت باری تعالیٰ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور صبح ہوتے بارش شروع ہوئی گرد و غبار دب کر موسم نہایت خوش فضا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بارش اور ہوا رکی‘ طرفین سے صفوف جنگ آراستہ ہوئیں۔ سلطان مراد خان نے اپنے یورپی علاقے کے جاگیرداروں کی فوج کے دستے میمنہ پر متعین کیے اور شہزادہ بایزید یلدرم کو ان کی سرداری سپرد کی میسرہ میں ایشیائی علاقوں کی فوج متعین کر کے شہزادہ یعقوب کو اس کی سرداری پر مامور کیا۔ قلب میں سلطان مراد خان خود اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ قائم ہوا اور بے قاعدہ سواروں‘ پیدلوں اور قراولی جنگ کرنے والے دستوں کو آگے بطور ہر اول مختلف ٹولیوں میں بڑھا دیا۔ ادھر عیسائی لشکر کے قلب کی فوج سرویا کے بادشاہ لازرس کے زیر کمان تھی اور اس کا بھتیجا دست راست کا افسر اور شاہ بوسنیا دست چپ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ دونوں جانب کی فوجیں نہایت مستعدی جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر مصروف جنگ ہو گئیں دوپہر تک نہایت پامردی اور جو انمردی کے ساتھ طرفین نے جم کر داد شجاعت دی اور فتح و شکست کی نسبت کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ آخر سلطان کے بیٹے یعقوب کی فوج میں آثار پریشانی ظاہر ہوئے اور