تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلح و آشتی کے تعلقات قائم ہوئے۔ اس کے بعد سلطان نے چند روز بروصہ میں رہ کر ایشیائے کوچک کے حالات کو معائنہ کرنا اور وہاں کے انتظام سلطنت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانا ضروری سمجھا۔ ادھر یورپ میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت اور جہاد کا جوش تو پہلے ہی موجود تھا۔ صلیبی لڑائیوں اور پادریوں کے جہادی و عظوں نے تمام برا عظم یورپ میں مسلمانوں کی ایک بڑی ہی مہیب اور قابل نفرت تصویر پیش کر کے نفرت کے سیلاب بہا رکھے تھے اب جب کہ تھریس ور ومیلیا اور اس سے بھی آگے تک کا ملک سلطان مراد خان کے قبضے میں آ کر مسلمانوں کی نو آبادی بننے لگا تو تمام یورپ میں ہل چل کا پیدا ہو جانا ضروری و لازمی تھا۔ ادھر شاہ سرویہ۔ قیصر قسطنطنیہ اور پوپ روم نے یورپ کے تمام ملکوں میں ترکوں کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دینے کے لیے سفیر۔ ایلچی اور مناد پھیلا دیئے تھے۔ یہ بالکل اسی قسم کی کوشش تھی جو بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے چھنینے اور ملک شام صلیبی لڑائیوں کا سلسلہ جاری کرنے کے لیے یورپ میں ہوئی تھی۔ ترکوں کے بلقان میں پہنچنے سے عیسائی لوگ ملک شام کو بھول گئے اور ان کو اب اپنے ملکوں کا بچانا اور خطرہ سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنا ضروری و لازمی ہو گیا۔ سلطان مراد خان ایشیائے کوچک میں بیٹھا ہوا ان حالات اور ان تیاریوں سے بے خبر تھا کیونکہ اس زمانے میں خبر رسانی کے ایسے ذرائع نہ تھے کہ وہ عین وقت پر اس بات سے واقف ہو جاتا کہ اس کی مخالفت میں کس کس قسم کی کوششیں کہاں کہاں کس کس طرح ہو رہی ہیں ۷۹۱ھ میں سلطان مراد خان بروصہ میں مقیم تھا اسی سال خواجہ حافظ شیرازی اور حضرت خواجہ نقش بند۔ (بہائو الدین) نے وفات پائی تھی۔ ادھر سرویہ۔ بلگیریہ۔ البانیا۔ ہنگری۔ گلیشیا۔ پولینڈ۔ جرمنی۔ آسٹریا۔ اٹلی۔ بوسینیا وغیرہ کی تمام طاقتیں اور قومیں متحد و متفق ہو کر سلطنت عثمانیہ کے استیصال پر مستعد ہو چکی تھیں۔ ۷۹۱ھ میں سلطان مراد خان کے پاس بروصہ میں خبر پہنچی کہ وہ فوج جو بیس ہزار کی تعداد میں رومیلیا کے اندر موجود تھی۔ عیسائی لشکر کے مقابلے میں برباد ہو گئی۔ یعنی سرویا اور بلگیریا کی فوجوں نے حملہ کر کے اور عہد اطاعت کو بالائے طاق رکھ کر بیس ہزار ترکوں میں سے پندرہ ہزار کو جام شہادت پلا دیا ہے اور تمام یورپی علاقہ اور دارالسلطنت ایڈریا نوپل خطرہ میں ہے۔ اس خبر کو سنتے ہی سلطان مراد خان بروصہ چل کر سمندر کو عبور کر کے ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے تیس ہزار کا ایک لشکر اپنے سپہ سالار علی کو دے کر آگے روانہ کیا کہ دشمنوں کے لشکر کی پیش قدمی کو روکے اور خود ایڈریا نوپل میں ضروری انتظامات کی طرف متوجہ ہوا۔ ۷۹۲ھ میں علی پاشا نے بلگیریا کے بادشاہ سسوال کو مغلوب و مجبور کر کے دوبارہ اطاعت پر آمادہ کر لیا۔ عیسائی ممالک کے لشکروں کو مرویہ کے بادشاہ نے سرویہ اور بوسینیا کی سرحد پر مقام کسودا میں جمع کیا اور یورپ کے اس لشکر عظیم نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنا کیمپ قائم کر کے سلطان مراد کو خود پیغام جنگ دیا۔ مراد خان بھی اب پورے طور پر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ خود اپنی تمام فوج کا سپہ سالار بن کر ایڈریا نوپل سے روانہ ہوا۔ اور پہاڑی دشوار گزار دروں کو طے کرتا ہوا کسودا کے میدان میں نمودار ہوا۔ اس میدان میں ایک چھوٹی سی ندی شنترا نامی بہتی ہے اس کے شمالی جانب عیسائی کیمپ تھا۔ دوسری جانب ۲۶ اگست ۱۳۸۹ء مطابق ۷۹۲ھ کو سلطان مراد نے جا کر قیام کیا۔ عیسائیوں نے جب مسلمانوں کے لشکر کو اپنے آپ سے تعداد اور سامان میں چوتھائی کے حوصلے اور بھی