تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بڑھ کر بہت سا ملک فتح کیا اور تھریس و رومیلیا کے صوبوں میں فوجی میں فوجی جاگیرداری کے قدیمی دستور کے موافق اپنے ہم قوم ترکوں اور مسلمان سرداروں کو آباد کرنا شروع کیا۔ کئی برس تک سلطان مراد خان اس ملک کو مضبوط کرنے اور اپنی حکومت کے مستحکم بنانے میں مصروف رہا۔ جنگی قیدیوں اور عیسائی رعایا کے نو عمر لڑکوں کے ذریعہ ینگ چری فوج میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ترکی سلطان نے اپنی حکومت کو خوب مضبوط بنا کر ایڈریا نوپل میں مستقل طور پر طرح اقامت ڈال دی ہے تو ۷۷۸ھ میں انہوں نے پھر سلطان مراد خان کے خلاف یورپ کی تمام طاقتوں کو متحد کیا۔ چنانچہ سرویا‘ بلگیریا‘ ہنگری‘ بوسینیا‘ پولینڈ‘ قسطنطنیہ پوپ روم کی فوجیں۔ سلطان مراد خان اور سلطنت عثمانیہ کو نیست و نابود کرنے کے لیے فراہم و مجتمع ہوئیں۔ مسلمانوں کی فوج اس مرتبہ بھی عیسائی لشکر کے مقابلہ میں پانچویں چھٹے حصے کی برابر تھی۔ اس لڑائی میں عیسائیوں کو حسب دستور شکست فاش نصیب ہوئی۔ سرویہ کے بادشاہ نے بارہ من پختہ چاندی سالانہ اور عندالطلب ایک ہزار سواروں کا لشکر مدد کے لیے بھیجنے کا وعدہ کر کے اپنی جان بچائی۔ اور یلگیریا کے بادشاہ نے اپنی بیٹی سلطان کی خدمت میں پیش کر کے آئندہ مطیع و منقاد رہنے کا وعدہ کیا۔ قیصر قسطنطنیہ نے اپنی تین خوبصورت لڑکیاں اس توقع میں پیش کیں کہ ایک سے سلطان مراد خان نکاح کرے اور دو اس کے دونوں بڑے بیٹوں کی بیویوں میں شامل کی جائیں اس لڑائی کے بعد قیصر قسطنطنیہ سلطان مراد خان کے یورپ سے بے دخل اور واپس کرنے سے مایوس ہو کر اس کوشش میں مصروف رہنے لگا کہ سلطان سے اس کی صلح رہے اور وہ اپنے مقبوضہ ملک اور قسطنطنیہ کے تخت پر حکمران رہنے دیا جائے۔ ایک طرف تو قیصر قسطنطنیہ عثمانی سلطان کی خوشامد میں مصروف رہتا تھا۔ دوسری طرف وہ اندر ہی اندر سلطان کے خلاف کوششوں میں مصروف تھا۔ چنانچہ ۷۸۲ھ میں قیصر قسطنطنیہ (پلیلوگس) نے کشود کار کی توقع میں قسطنطنیہ سے شہر روم میں یوپ کے پاس جانے اور اس کی اطاعت قبول کرنے کی ذلت محض اس وجہ سے اٹھائی کہ یورپ کو میدان جنگ میں لے آئے مگر اس تدبیر میں جب کہ اس کو کامیابی نظر نہ آئی تو وہ بہت خوفزدہ ہوا اور سلطان کے غضب سے محفوظ رہنے کے لیے اس نے اپنے بیٹے تھیوڈورس کو سلطان کی خدمت میں بھیج کر درخواست کی کہ اس کو ینگ چری فوج میں بھرتی ہونے کی عزت دی جائے۔ چنانچہ اس تدبیر سے اس نے سلطان کو بہت خوش اور اپنی طرف سے مطمئن کر دیا۔ انہی ایّام میں سلطان مراد خان کو ایشیائے کوچک میں بعض بغاوتوں اور سرکشیوں کے استیصال کی غرض سے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اور اپنے یورپی مقبوضات کی حکومت ایڈریا نوپل میں اپنے بیٹے ساوجی کو سپرد کر گیا۔ سلطان کی اس غیر موجودگی میں قیصر قسطنطنیہ کا ایک اور بیٹا جس کا نام اینڈونیکس تھا ایڈریا نوپل میں آیا۔ اور مراد خان کے بیٹے کا دوست اور رفیق بن کر اس کے مزاج میں دخیل ہوا اس عیسائی شہزادے نے مسلمان شہزادے کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی ایک عجیب کوشش کی اس نے کہا کہ میرا باپ بھی حکومت کی قابلیت نہیں رکھتا اور میرے اوپر بہت ظلم کرتا ہے اور اسی طرح آپ کا باپ بھی آپ کی نسبت دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا یہ موقعہ محض اتفاق سے ہاتھ آ گیا ہے۔ میں نے بھی اپنے لشکر کے ایک معقول حصہ کو اپنا شریک بنا لیا ہے آپ بھی اپنے ساتھ یہاں کافی فوج رکھتے ہیں آئو