تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیے جائیں۔ چنانچہ قیصر نے سلطان ار خان کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنی نہایت خوبصورت و حسین بیٹی تھیوڈورا کی شادی آپ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔ قیصر کو معلوم تھا کہ سلطان کی عمر ساٹھ سال کی اور اس کی بیٹی نوجوان ہے نیز وہ مذہب کے اختلاف سے بھی بے خبر نہ تھا۔ سلطان نے قیصر کی اس درخواست کو رد نہیں کیا۔ اور بڑی دھوم دھام کے ساتھ ملکہ تھیوڈورا کی شادی سلطان ار خان کے ساتھ ہوئی۔ سلطان خود قسطنطنیہ گیا اور ملکہ کو بیاہ کر لایا۔ اس شادی کے بعد قیصر کو اطمینان ہو گیا کہ اب ترک میرے ملک پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے اور میں اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا بخوبی موقعہ پا سکوں گا۔ مگر اس کے آٹھ سال بعد ایک عجیب صورت ترکوں کے یورپ میں داخل ہونے کے لیے پیدا ہوئی۔ یعنی ۷۵۶ھ میں وینس اور جنیوا کی سلطنتوں میں بحر روم کے ساحلی علاقوں اور بندر گاہوں کی نسبت جھگڑا پیدا ہوا۔ وینس اور جینوا دونوں زبردست بحری طاقتیں تھیں اور ان دونوں نے تمام بحر روم پر اپنا قبضہ و اقتدار قائم رکھا تھا۔ جنیوا والوں کا علاقہ قیصر قسطنطنیہ کے مقبوضات سے متصل تھا اس لیے قیصر قسطنطنیہ کو جنیوا والوں سے سخت نفرت و عداوت تھی اور وہ وینس والوں کی کامیابی کا خواہاں تھا۔ وینس والے بھی قیصر قسطنطنیہ کے ہوا خواہ ہمدرد تھے۔ ادھر ار خان کو وینس والوں سے اس لیے نفرت تھی کہ وہ ایشیائے کوچک کے جنوبی ساحل پر اکثر باعث تکلیف ہوتے رہتے اور سلطان ار خان کی حکومت و سلطنت کو بہ نظر حقارت دیکھتے تھے۔ اس نفرت کا لازمی نتیجہ تھا کہ سلطان ار خان جنیوا والوں کا ہمدرد ہوا۔ چنانچہ جنیوا والے بھی سلطان ار خان کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ اتفاقاً آ بنائے باسفورس کے قریب وینس اور جنیوا والوں میں معرکۂ کارزار گرم ہوا۔ اس طرف کے ساحلی صوبہ کا عامل و گورنر سلطان ار خان کا بیٹا سلیمان خان تھا۔ ایک روز سلیمان خان جنیوا والوں کی ایک کشتی میں صرف چالیس آدمیوں کے ہمراہ سوار ہو کر رات کے وقت در دانیال کو عبور کر کے یورپی ساحل پر اترا اور ساحل کے اس قلعہ کو جو وینس والوں کے لیے موجب تقویت تھا فتح کر لیا اس کے بعد فوراً کئی ہزار ترک اس قلعہ میں اپنے شہزادے کے پاس پہنچ گئے۔ جس سے جنیوا والوں کو بڑی مدد پہنچی۔ یہ حال معلوم ہو کر قیصر قسطنطنیہ کو سخت ملال ہوا وہ یہ ارادہ ہی کر رہا تھا کہ سلطان ار خان کو لکھے کہ سلیمان کو قلعہ چھوڑ دینے کا حکم دیں کہ اتنے میں خود قیصر کے دارالسلطنت میں اس کے دوسرے داماد نے علم بغاوت بلند کیا اور قیصر کو اپنا دارالسلطنت بچانا دشوار ہو گیا اس نے فوراً سلطان ار خان سے امداد طلب کی۔ سلطان ار خان نے اپنے بیٹے سلیمان خان کو لکھا کہ روپیہ لے لو اور یہ قلعہ چھوڑ کر واپس چلے جائو۔ سلیمان خان اس پر آمادہ تھا کہ اتنے میں سخت زلزلہ آیا اور شہر گیلی پولی کی فصیل گر گئی اور شہر والے زلزلہ سے خائف و ترسان ہوئے۔ اس زلزلہ کو تائید غیبی سمجھ کر عضدی بیگ اور غازی فاضل دو سرداروں نے جو سلیمان خان کے ہمراہ تھے گری ہوئی فصیل کو طے کر کے اور شہر میں داخل ہو کر گیلی پولی پر قبضہ کر لیا۔ گیلی پولی پر قبضہ کرنے کے بعد سلیمان خان نے فوراً فصیلوں کی مرمت کرائی اور ایک مضبوط ترکی فوج وہاں قائم کر دی۔ قیصر کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے ار خان کو شکایت لکھی۔ ار خان نے جواب میں لکھا کہ میرے بیٹے نے گیلی پولی کو بزور شمشیر فتح نہیں کیا بلکہ زلزلہ کے اتفاقی حادثہ نے اس کے لیے شہر پر قبضہ کرنے کا موقعہ پیدا کر دیا ہے۔ اور میں اس کو وہاں سے واپس بلانے کے لیے لکھوں گا اور اصل