تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لئے ہر ایک ممکن تدبیر کو کام میں لایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک یہ ملک ترکوں کا جائے پناہ بنا ہوا ہے۔ اور چھ سو سال گذرنے کے بعد بھی اس ملک کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے اسلام اور ترکوں کو نکال دینے کی جرأت کسی قوم اور کسی سلطنت میں نظر نہیں آتی۔۱؎ ارخان کی سلطنت کے تذکرہ میں اس وزیر با تدبیر کے کارناموں کا خصوصی تذکرہ نہ کرنا ایک ظلم تھا۔ اور چونکہ وہ ار خان کا بڑا بھائی تھا اس لیے پہلے اسی کے کارناموں کی طرف اشارہ کرنا ضروری تھا۔ اب ار خان کی سلطنت کے واقعات سنو کہ اس کی تخت نشینی کے وقت اینڈر و نیکوس نامی قیصر قسطنطنیہ تھا وہ اپنے تمام ایشیائی مقبوضات چھنوا کر ایشیائے کوچک سے بالکل مایوس ہو گیا اور اس کو اس ۱؎ ترکی کی موجودہ حالت بہت افسوس ناک ہے۔ یورپ کی تہذیب وہاں چھائی ہوئی ہے۔ اسلام پر پابندی ہے۔ پارلیمنٹ میں اسلام کی طرف پیش رفت کرنے والا کوئی بل پیش یا پاس نہیں ہو سکتا کیونکہ فوج ایکشن لے لیتی ہے اور حکومت یا پارلیمنٹ معزول کر دی جاتی ہے۔ کم و بیش یہ صورت حال تقریباً تمام مسلم ممالک میں ہے۔ باپ کا خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ترک سمندر کو عبور کر کے یورپی ساحل پر نہ اتر آئیں مگر ارخاں نے یورپ کی سرزمین پر قدم رکھنے سے زیادہ ضروری اس کام کو سمجھا کہ اپنے بھائی علائو الدین کی اصلاحوں اور ایجادوں کو ایشیائے کوچک میں اچھی طرح جاری اور رائج کر کے فائدہ اٹھائے اور اپنے مقبوضہ ملک میں خوب مضبوط ہو جائے۔ چنانچہ اس نے قریباً بیس سال تک اپنی تمام تر ہمت اصلاح ملک اور ملک داری کے کاموں میں صرف کی۔ اگر باقی ترک سلاطین بھی ار خان اور اس کے بھائی علائو الدین کی طرح نو مفتوحہ ملکوں کو اسی طرح درست بنانا ضروری سمجھتے تو جس طرح ایشیائے کوچک آج تک ترکوں کا مامن و امید گاہ بنا ہوا ہے۔ مصر۔ بلقان۔ حجاز طرابلس وغیرہ بھی ان کے مامن و امید گاہ ہوتے۔ قیصر قسطنطنیہ کے پوتے اور شہزادہ کنٹا کوزینس نے قیصر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ یہ ۷۳۹ھ کا واقعہ ہے۔ عیسائیوں کی اس خانہ جنگی میں قدرتی طور پر عثمانیوں کے لیے ایک کامیابی کی صورت پیدا ہوئی۔ صوبہ ایدن کے ترکی گورنر شہزادہ عمر بے سے باغیوں نے امداد طلب کی۔ اس نے ۳۸۰ جہازوں کا بیڑہ اور ۲۸ ہزار فوج لے کر سمندر کو عبور کیا اور یورپ میں داخل ہو کر شہر ڈیموٹیکا پر سے محاصرہ اٹھا دیا۔ اس کے بعد دو ہزار چیدہ سوار لے کر سرویا میں یلغار کرتا ہوا داخل ہوا۔ قیصر نے عمر بے یا عمر پاشا کو زر کثیر دے کر باغیوں کی امداد سے باز رکھا اور ترکی گورنر عمر پاشا‘ یورپ سے واپس ہو کر اپنے صوبہ میں چلا آیا۔ مگر اس کی اس یلغار کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیصر رونیکس کا پوتا اس قدر قابو پا گیا کہ اس نے قیصر کو تخت سلطنت سے اتار کر خود تخت قیصری حاصل کر لیا۔ ۷۴۲ھ میں اس کے فوت ہونے پر جان پلا لوگس قسطنطنیہ کے تخت پر متمکن ہوا۔ مگر ۷۴۸ھ میں کنٹا کوزنیس نے جان پلالوگس کو معزول کر کے تخت حکومت حاصل کر لیا۔ اور ۷۹۴ھ تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے بعد دو اور قیصروں نے ۸۵۷ھ تک حکومت کی جس کے بعد قسطنطنیہ ترکوں کے قبضہ میں آ گیا۔ قیصر کنٹا کوزینس (کنٹیکو زینی) نے تخت قیصری پر قدم رکھتے ہی سلطان ار خان کو ایشیائے کوچک کا سلطان اعظم تسلیم کر لیا۔ اور ترکوں کی ترک و تاز سے یورپی علاقہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سمجھا کہ سلطان سے خصوصی تعلقات پیدا