تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھے۔ اسی فوج کا نام ینگ چری فوج مشہور ہے۔ ان لوگوں کو اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا اور وہ سب کے سب اسلام کے سچے پکے خادم ہوتے تھے اس طرح ہر سال ایک ہزار عیسائی بچے قیدیوں اور ذمیوں میں سے انتخاب کر کے داخل کئے جاتے اور تعلیم و تربیت کے بعد شاہی باڈی گارڈ میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس عجیب و غریب قسم کی فوج نے سرداروں اور جاگیرداروں کی بغاوت کے خطرہ کو سلاطین ترکی کے لئے بالکل مٹا دیا تھا۔ دوسری طرف وزیراعظم علائو الدین نے ملک میں جابجا مدارس جاری کئے۔ عیسائیوں کو قریباً وہی حقوق عطا کئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے تجارت کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گرجوں کے لئے معافیاں اور جاگیریں عطا کیں۔ رعایا کے آرام اور سہولت کو ہر حال میں مقدم رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی لوگ بخوشی خاطر اسلام میں داخل ہونے لگے کیونکہ ان کو اطمینان کے ساتھ اسلام کے مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ آج کل لوگ ینگ چری فوج کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عیسائیوں پر ایک ظالمانہ ٹیکس تھا کہ اس کے بچوں کو ان سے زبردستی چھین کر مسلمان بنایا اور پھر عیائیوں ہی کے مقابلہ پر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ینگ چری فوج جس شان و شوکت کے ساتھ رہتی اور جس طرح سلطان کی منظور نظر تھی اس کو دیکھ دیکھ کر عیسائیوں کو خود خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ہم اپنے بیٹے کو سلطانی تربیت گاہ میں داخل کر دیں کیونکہ ان کو داخل ہونے کے بعد راحت و عزت کے سوا کسی خطرہ کا کوئی اندیشہ نہ تھا وہ جانتے تھے کہ ینگ چری فوج میں داخل ہونے کے بعد ہمارے بچوں کو کسی قسم کا کوئی آزار نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور ان کی طرف کوئی آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ سالانہ بھرتی کے موقعہ پر بلاجبروا کراہ یہ تعداد پوری ہو جاتی تھی اور بعض امیدواروں کو واپس کرنا پڑتا تھا۔ یہ ینگ چری فوج ایک جدید فوج تھی اس کے علاوہ وہ قدیمی دستور بدستور موجود تھا۔ اس فوج میں بھی علائو الدین وزیر نے بہت اصلاحیں کیں۔ فوج کی وردیاں مقرر کیں۔ ان کو تعداد کے اعتبار سے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے پابند آئین بنایا۔ صدی پانصد ہزار وغیرہ سردار مقرر کئے۔ پیادہ اور سواروں کی الگ الگ فوجیں بنائیں۔ ان کے علاوہ رضاکاروں کے لئے بھی قانون بنایا۔ اسی طرح مال کے محکمے میں اصلاحیں کیں فوج داری اور فصل خصومات کی کچہریاں شہروں اور قصبوں میں قائم کیں۔ پولس اور میونسپلٹی کے محکموں کی طرف بھی اس کی خصوصی توجہ مبذول تھی ملک کے ایسے قبیلوں کو جو آوارہ گردی و قزاقی کے شوقین تھے۔ وزیر علائو الدین نے ایسے کام پر لگا دیا جو ان کے لئے بہت ہی دل پسند کام تھا۔ یعنی اس نے ان میں بھی ایک نظام پیدا کر کے ان کی فوجیں اور پلٹنیں بنا دیں جن کا کام یہ تھا۔ کہ جس ملک پر سلطنت عثمانی کی فوجیں حملہ آور ہوں یہ پلٹنیں میدان جنگ کے اطراف اور دشمن کے ملک میں پھیل کر غارت گری کا سلسلہ جاری کر کے حریف کو مرعوب و خوف زدہ بنائیں۔ وزیراعظم علائو الدین نے محمکہ تعمیرات کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول فرمائی جابجا شہروں قصبوں اور قریوں میں مسجدیں‘ سرائیں‘ مدرسے اور شفاخانے تیار کرائے۔ بڑے بڑے شہروں میں عالی شان شاہی محلات‘ دریائوں پر پل اور سڑکوں پر حفاظتی چوکیاں بنوائیں نئی سڑکیں نکلوائیں تاکہ تجارت اور فوجوں کی نقل و حرکت میں آسانی ہو۔ غرض کہ ایشیائے کوچک کی آبادی و سر سبزی اور سلطنت عثمانیہ کے قیام و استحکام