تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہ تھا۔ صرف ایک لڑکی تھی۔ جو عثمان خان کے عقد میں تھی۔ لہٰذا اراکین سلطنت نے متفقہ طور پر عثمان خان کو قونیہ کے تخت سلطنت پر بٹھا کر اپنا بادشاہ تسلیم کیا۔ اس طرح اسرائیل بن سلجوق کی اولاد نے جو سلطنت ۴۷۰ھ میں قائم کی تھی وہ ۶۹۹ھ میں ختم ہو کر اس کی جگہ سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی جو ہمارے اس زمانہ تک قائم رہی۔ اسرائیل بن سلجوق وہی شخص تھا جس کو سلطان محمود غزنوی کے حکم سے سات برس تک ہندوستان کے قلعہ کا لنجر میں قید رہنا پڑا تھا۔ عثمان خان کی تخت نشینی کے وقت سلطنت قونیہ کی بہت ہی کمزور حالت تھی۔ اور رومیوں نیز مغلوں کے حملوں سے اس ضعیف تر اور برائے نام سلطنت کا مٹ جانا یقینی تھا لیکن عثمان خان کے تخت نشین ہوتے ہی اس تن بے جان میں جان پڑنی شروع ہوئی جس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ عثمان خان کے ساتھی اور اراکین سلطنت اور فوج کے سپاہی اور رعایا سب عثمان خان کے حسن سلوک سے خوش اور اس کو محبوب رکھتے تھے۔ عثمان خان میں ایک طرف دینداری اور دوسری طرف شجاعت بدرجہ کمال موجود تھی عثمان خان نے سب سے پہلے رومیوں سے شہر قرا حصار فتح کر کے اپنا دار السلطنت بنایا اور اس نئی سلطنت کا نیا دارالسلطنت تجویز ہونا بھی بہت ہی مبارک و میمون ثابت ہوا۔ عثمان خان کو اپنی تخت نشینی کے بعد ہی حاسدوں اور رقیبوں کی عداوتوں اور سازشوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ جن پر وہ انجام کار غالب آیا اور سب کو طاقت کے ذریعہ خاموش کر دیا تاہم سلجوقیوں کے پرانے خاندان کے افراد عثمان خان کی حکومت و سلطنت کو رشک و رقابت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اور اس پر کوئی تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر عثمان خان کسی موقعہ پر بھی اپنی کمزوری یا خوف کا اظہار کرتا تو اس کے رقیب یقیناً اس کے خلاف فوراً اٹھ کھڑے ہوتے۔ لیکن عثمان خان نے ہر موقعہ پر اپنے آپ کو بے خوف اور نڈر ثابت کیا۔ چنانچہ جب عیسائیوں نے شروع ہی میں قونیہ پر حملہ آوری کے لیے فوجیں فراہم کیں۔ تو عثمان خان نے امرائے سلطنت کو جمع کر کے مجلس مشورت منعقد کی۔ اس موقعہ پر عثمان خان کا چچا یعنی ارطغرل کا بھائی بھی جو بہت بوڑھا تھا موجود تھا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ہم کو فوج کشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو صلح و آشتی کے ذریعہ اس جنگ کو ٹال دینا چاہیے۔ اگر جنگ برپا ہوئی تو اندیشہ ہے کہ مغلوں اور دوسرے ترک سرداروں کی فوجیں بھی عیسائیوں کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے ملک پر چڑھائیاں کر دیں گی ہم ان سب کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ عثمان خان نے اپنے چچا کی زبان سے یہ پست ہمتی پیدا کرنے والا مشورہ سن کر فوراً بلا تامل اپنی کمان میں تیر جوڑ کر اس بوڑھے چچا کا کام تمام کر دیا۔ اس نظارہ کو دیکھ کر کسی کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ جنگ اور حملہ آوری کے خلاف رائے ظاہر کرے چنانچہ عثمان خان نے حملہ کیا اور عیسائیوں کو شکست فاش دے کر قرا حصار پر قابض و متصرف ہو گیا۔ اور اس کے بعد بجائے قونیہ کے قرا حصار ہی کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ اس کے بعد عثمان خان نے پہیم عیسائی علاقوں پر حملے شروع کر دیئے اور ایک کے بعد دوسرا شہر فتح کرتا اور عیسائیوں کو ایشیائے کوچک سے نکالتا گیا۔ عیسائیوں کے بادشاہ قیصر قسطنطنیہ نے جب دیکھا کہ عثمان خان کا سیلاب بڑھتا ہی چلا آتا ہے تو اس نے مغلوں سے خط و کتابت اور پیام و سلام شروع کر کے اس بات کی کوشش شروع کی کہ مغل مشرق کی جانب سے عثمان خان پر حملہ آور ہوں۔ تاکہ وہ عیسائیوں کی طرف سے منہ