تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موقعہ دیا کہ وہ جنگ جو افراد اور جنگجوئی کے سامانوں کو اپنے گرد آزادانہ فراہم کر لے۔ ابھی چنگیز خان کے مرنے میں تین سال باقی تھے کہ اس نے ۶۲۱ھ میں ایک زبردست فوج سلجوقیوں کی اس سلطنت پر جس کا دارالسلطنت قونیہ تھا۔ حملہ آوری کے لیے روانہ کی۔ قونیہ میں علائو الدین کیقبا سلجوقی فرماں روا تھا۔ اوپر کے صفحات میں ذکر آ چکا ہے کہ اس سلجوقی حکومت کے فرماں روائوں یعنی سلاجقہ روم کو ہمیشہ رومیوں یعنی عیسائیوں سے برسر پیکار رہنا پڑتا تھا۔ اب امتداد زمانہ سے یہ سلطنت بہت ہی کمزور ہو چکی تھی۔ سلیمان خان کو جب یہ خبر پہنچی کہ مغلوں نے علائو الدین کیقباد پر حملہ کیا ہے تو اس کو بہت ملال ہوا۔ کیونکہ قونیہ کا سلطان مسلمان اور مغل کافر تھے۔ قونیہ کی سلطنت عیسائیوں کے مقابلے میں ہمیشہ برسر جہاد رہتی تھی۔ اور مغلوں نے عالم اسلام کو تہ و بالا کر ڈالا تھا۔ سلیمان خان نے علائو الدین کیقباد کو امداد پہنچانے اور اس لڑائی میں شریک ہو کر شہادت حاصل کرنے کا بہترین موقعہ سمجھ کر اپنے قبیلہ کو کوچ کی تیاری کا حکم دیا۔ سلیمان خان کی اس جمعیت کی صحیح تعداد تو نہیں معلوم ہو سکی مگر سلیمان خان نے اس جمعیت کا ایک حصہ جو اپنے بیٹے ارطغرل کو دے کر بطور ہر اول آگے روانہ کیا تھا۔ اس کی تعداد ۴۴۴ھ تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے اور اہم واقعات میں جس طرح حیرت انگیز طور پر جس اتفاق کا معائنہ ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح اس موقعہ پر بھی عجیب حسن اتفاق پیش آیا۔ ادھر آرمینیا کی جانب سے یہ مجاہدین کی فوج جا رہی تھی ادھر مغلوں کی فوج علائو الدین کیقباد سلجوقی کی فوج کے مقابل پہنچ گئی تھی۔ عین اس وقت جب کہ سلجوقی لشکر اور مغلوں کی فوج میں ہنگامہ کا رزار گرم تھا اور مغل بہت جلد علائو الدین کے لشکر کو مغلوب کیا چاہتے تھے۔ سلیمان خان کا بیٹا ارطغرل اپنے ہمراہی دستے کو لیے ہوئے نمودار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ دو فوجیں بر سر پیکار ہیں اور ایک فوج بہت جلد مغلوب ہو کر میدان کو خالی کرنے والی ہے ارطغرل کو معلوم نہ تھا کہ کہ دونوں لڑنے والے کون کون ہیں۔ لیکن اس نے یہی مناسب سمجھا کہ کمزور فریق کی مدد کروں چنانچہ ارطغرل اپنے ۴۴۴ھ ہمراہیوں کو لے کر کمزرو فریق کی طرف سے زبردست فریق پر ٹوٹ پڑا۔ یہ حملہ اس شدت اور بے جگری کے ساتھ کیا گیا کہ مغلوں کے پائوں اکھڑ گئے اور میدان میں اپنی بہت سی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ علائو الدین کیقباد سلجوقی ذرادیر پہلے اپنی شکست اور ہلاکت کو یقینی سمجھ رہا تھا۔ اس غیر مترقبہ امداد اور فتح کو دیکھ کر بہت مسرور ہوا۔ اور میدان جنگ میں ارطغرل سے جو فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوا تھا۔ بغل گیر ہو کر ملا۔ ارطغرل کو بھی بے حد مسرت حاصل ہوئی کہ وہ عین وقت پر پہنچا اور جس مقصد کے لیے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا وہ بحسن و خوبی حاصل ہو گیا ابھی ارطغرل اور علائو الدین کیقباد اس مسرت و شادمانی کا لطف اٹھا رہے تھے کہ سلیمان خان بھی اپنی جمعیت کے ساتھ اسی میدان میں پہنچ گیا۔ علائو الدین سلجوقی نے سلیمان خان اور اس کے بیٹے ارطغرل کو خلعت گراں بہا عطا کیے۔ ارطغرل کو شہر انگورہ کے قریب جاگیر عطا کی اور سلیمان خان کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا۔ علائو الدین سلجوقی کے فہم و فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے ارطغرل کو جاگیر عطا کرنے کے لیے بہترین علاقہ کا انتخاب کیا۔ قونیہ کی سلطنت پہلے بہت وسیع تھی اب صورت یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ایشیائے کوچک کے شمالی و مغربی علاقے پر