تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انہوں نے حرف شکایت زبان پر لانا شروع کیا۔ سلطان مسعود کی اس ہندو نوازی پر اس لیے اور بھی سب کو تعجب تھا کہ مکران کی لڑائی میں ہندو پلٹنوں نے سخت بزدلی اور نامردی دکھائی تھی۔ اور اس امتحان کے بعد ہرگز کسی کو توقع نہ تھی کہ سلطان مسعود اس طرح ہندئوں کا گرویدہ ہو جائے گا آخر خراسان کے ایک جنگل میں سلجوقیوں سے جب معرکہ آرائی ہوئی تو ان ہندو سپاہیوں نے سب سے پہلے فرار کی عار گوارا کر کے سلطان مسعود اور اس کی افغانی فوج کو خطرہ اور ہلاکت میں مبتلا کر دیا۔ چند جان نثاروں کی پامردی سے سلطان مسعود اپنی جان تو بچا لایا۔ مگر شکست فاش کی ندامت اپنے ہمراہ لایا۔ اس شکست کے بعد سلطان مسعود پر کچھ ایسی بد دلی اور کم ہمتی طاری ہوئی کہ اس نے اپنے وزیر اور اپنے بیٹے مودود کو غزنین میں چھوڑ کر اور تمام اموال و خزائن اونٹوں ہاتھیوں چھکڑوں اور آدمیوں پر لدوا کر اور ہمراہ لے کر ہندو سرداروں کے ساتھ اس ارادے سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا کہ لاہور کو دارالسلطنت بنائوں گا۔ اور وہیں قیام کروں گا۔ چونکہ سلطان مسعود نے اپنا یہ ارادہ پہلے ہی غزنین میں ظاہر کر دیا تھا۔ لہٰذا وہاں کے سرداروں اور امیروں نے سلطان کو اس ارادے سے باز رکھنے کی بے حد کوشش کی اور سمجھایا کہ اس شکست کا تدارک انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہو جائے گا۔ اور ہم سلجوقیوں کو مار کر خراسان سے بھگا دیں گے۔ اپنے باپ کے دارالحکومت کو آپ نہ چھوڑیں۔ مگر مسعود پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اور غزنین کے خزانے میں جھاڑو دے کر اور تمام جواہرات‘ نقدی‘ زیور حتیٰ کہ ظروف اور قیمتی کپڑے تک بھی سب کے سب لے کر غزنین سے چل دیا۔ اور اپنے بیٹے مودود کو جو ان دنوں بلخ و بدخشان کی طرف تھا خط لکھ کر بھیج دیا کہ میں تم کو غرنین و خراسان وغیرہ کا حاکم مقرر کرتا ہوں اور میرے پاس سے تمہارے نام احکام و فرامین اور مناسب ہدایات پہنچتی رہیں گی۔ ان پر عمل کرنا اور ترکوں سے ملک کو پاک کرنے کی کوشش میں مصروف رہنا یہاں تک کہ مع سامان جب دریائے سندھ کو عبور کیا تو اس طرف آتے ہی ہندو پلٹنوں اور ہندو سرداروں نے جو ہمراہ تھے۔ آنکھیں بدلیں اور سب کے سب شاہی خزانہ پر ٹوٹ پڑے۔ وہ تمام خزانہ جو سبکتگین اور محمود غزنوی نے چالیس پچاس سال کے عرصہ میں جمع کیا تھا۔ ذرا سی دیر میں دریائے سندھ کے کنارے ہندئووں نے لوٹ لیا اور سلطان مسعود کو مسلمانوں کی مختصر سی جماعت کے ساتھ چھوڑ کر منتشر ہو گئے۔ اس دل شکن اور روح فرسا نظارہ کو دیکھ کر مسلمانوں کی اس مختصر جمعیت نے سلطان مسعود کو اس کے اختلال دماغی کے سبب معزول کر دیا۔ اور اس کے بھائی محمد کو جو نابینا اور اس سفر میں مسعود کے ہمراہ قید کی حالت میں تھا آزاد کر کے اپنا بادشاہ بنایا۔ محمد کے بادشاہ ہونے کا حال سن کر ہندو فوج کے بہت سے آدمی پھر محمد کے گرد آ کر جمع ہو گئے۔ کیونکہ ان کو اب اس بات کا خوف نہ تھا کہ مسعود ہم سے انتقام لے سکے گا۔ مسعود جب گرفتار ہو کر محمد کے سامنے پیش کیا گیا تو محمد نے بھائی سے اپنی آنکھوں کا بدلہ نہیں لیا۔ بلکہ صرف یہ دریافت کیا کہ تم اپنے لیے اب کیا پسند کرتے ہو۔ مسعود نے کہا کہ مجھ کو قلعہ کری میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ محمد نے اس کو قلعہ کری میں مع اہل و عیال بھجوا دیا۔ اور اپنے نام کا سکہ خطہ پنجاب اور سرحدی علاقے میں جاری کیا۔ محمد کے بیٹے احمد نے باپ کی اجازت و اطلاع کے بغیر قلعہ کری میں جا کر اپنے چچا مسعود سے اپنے والد کی آنکھوں کا بدلہ اس طرح لیا کہ اس کو قتل کر دیا۔ یہ حال سن کر محمد کو ملال ہوا اور اپنے بھتیجے مودود کے پاس جو بلخ میں تھا۔ پیغام بھیجا کہ تیرے