تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باپ مسعود کو میں نے اپنے حکم سے قتل نہیں کرایا۔ بلکہ احمد نے میرے منشا کے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی ہے۔ مودود جو بلخ میں سلجوقیوں کے خلاف مہم تیار کر رہا تھا۔ اس خبر کو سنتے ہی فوج لے کر چلا ادھر سے دریائے سندھ کے کنارے محمد کی فوج نے اس کو روکا لڑائی ہوئی۔ جس میں مودود کو فتح ہوئی۔ اور محمد اور اس کے تمام اہل و عیال کو مودود نے گرفتار کر کے اپنے باپ کے انتقام میں قتل کیا۔ اس کے بعد مودود غزنین جا کر ۳۳۵ھ میں تخت نشین ہوا۔ مودود بھی اپنے باپ مسعود کی طرح سلجوقیوں سے بہت سی لڑائیاں لڑا مگر آخر کار مجبور ہو کر اس نے مارواء النہر غزنی اور ہندوستان کی حکومت پر اکتفا کیا۔ باقی تمام ممالک یعنی خراسان و خوارزم و عراق وغیرہ ہمیشہ کے لیے سلطنت غزنی سے نکل گئے اور سلجوقی ان ملکوں کے بادشاہ بن گئے۔ ۴۴۱ھ میں مودود بن مسعود نے وفات پائی اور اس کی جگہ اس کا بیٹا علی تخت نشین ہوا ۴۴۳ھ میں علی کے بعد عبدالرشید بن مودود تخت نشین ہوا۔ مگر چند ہی روز کے بعد ایک سردار طغرل نامی نے عبدالرشید کو قتل کر کے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ مگر امرائے سلطنت نے بہت جلد متفق ہو کر طغرل کو قتل کیا۔ اور ۴۴۴ھ میں فرخ زاد بن مسعود کو غزنی کے تخت سلطنت پر بٹھایا۔ فرخ زاد نے تخت نشین ہو کر ہمت و قابلیت کا اظہار کیا۔ اور لشکر فراہم کر کے خراسان کو سلجوقیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش کی۔ ابتداء کئی لڑائیوں میں فرخ زاد کو سلجوقیوں پر فتح حاصل ہوئی مگر آخر جب الپ ارسلان سلجوقی سے مقابلہ ہوا۔ تو غزنی کے لشکر کو شکست ہوئی اور خراسان کے ملک پر فرخ زاد کو قبضہ حاصل نہ ہو سکا۔ ۴۵۰ھ میں فراخ زاد کے بعد اس کا بھائی ابراہیم بن مسعود تخت نشین ہوا۔ سلطان ابراہیم غزنوی بڑا نیک۔ عابد۔ بہادر اور عقل مند شخص تھا۔ اس نے تخت نشین ہو کر یہی مناسب سمجھا کہ سلجوقیوں کے ساتھ صلح کر لی جائے۔ چنانچہ سلجوقیوں نے نہایت خوشی کے ساتھ صلح کر لی‘ اس صلح کے بعد وہ اپنے آپ کو خراسان کا جائز حکمران سمجھنے لگے۔ اور آئندہ کے لیے غزنویوں اور سلجوقیوں کے درمیان جنگ و پیکار کا سلسلہ بند ہوا۔ اس طرف سے مطمئن ہو کر سلطان ابراہیم نے ہندوستان کی طرف توجہ کی ۔ اب تک غزنی کے سلاطین چونکہ اپنے مقامی جھگڑوں اور سلجوقیوں کی لڑائیوں میں مصروف تھے لہٰذا عرصہ سے ہندوستان کی طرف توجہ نہیں ہو سکی تھی۔ اس عرصہ میں ہندوستان کے اکثر سردار اور راجے خود مختار ہو کر باج و خراج کی ادائیگی سے گریز کرنے لگے تھے۔ سلطان ابراہیم نے ہندوستان کے سرکشوں پر متعدد حملے کیے اور اس طرف اپنی حکومت کو خوب مضبوط و مستقل بنایا۔ سلطان ابراہیم نے ۴۲ یا ۴۳ سال حکومت کی اور ۴۹۳ھ میں وفات پائی۔ اس کے بعد مسعود بن ابراہیم تخت نشین ہوا۔ اور ۱۶ سال حکمران رہ کر ۵۰۹ھ میں فوت ہوا مسعود بن ابراہیم نے کچھ عرصہ کے لیے لاہور کو بھی اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ مسعود کے بعد اس کا بیٹا ارسلان تخت نشین ہوا۔ اور تین سال تک حکومت کی ۵۱۲ھ میں سلطان سنجر سلجوقی نے غزنین کو فتح کر کے ارسلان کے بھائی بہرام بن مسعود بن ابراہیم کو غزنی کے تخت پر بٹھایا۔ بہرام نے ۳۵ سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہندوستان پر اس نے بھی باغیوں کی گوشمالی کے لیے متعدد حملے کیے۔ اور لاہور میں اکثر مقیم رہا۔ اسی کے عہد حکومت