تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غزنوی اپنے زمانے میں سب سے زیادہ طاقتور مسلمان بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی اسی وسیع سلطنت کا اپنے دونوں بیٹوں کے لیے وہی انتظام کیا تھا۔ جو خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے اپنے دونوں بیٹوں امین و مامون کے لیے کیا تھا۔ محمود غزنوی کے دونوں بیٹے بھی اسی طرح آپس میں لڑے جیسے کہ امین و مامون لڑے تھے۔ مگر جس طرح مامون الرشید اپنے بھائی امین الرشید پر غلبہ پا کر شوکت سلطنت کو باقی رکھ سکا۔ محمود کا بیٹا مسعود اپنے بھائی محمد پر غالب ہو کر سلطنت کی عظمت و شوکت کو باقی نہ رکھ سکا۔ محمود غزنوی نے ماوراء النہر‘ خراسان غزنی پنجاب وغیرہ کی حکومت اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو دی تھی اور خوارزم۔ عراق‘ فارس اصفہان وغیرہ ممالک بڑے بیٹے مسعود کو دیئے تھے۔ محمود کے فوت ہوتے ہی دونوں بھائیوں میں جھگڑا شروع ہوا۔ محمد غزنی کے تخت پر بیٹھا۔ اور مسعود نے رے میں جلوس کیا۔ اول اس بات پر نزاع شروع ہوا کہ مسعود بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے خواہان تھا کہ میرا نام خطبہ میں محمد سے پہلے لیا جائے۔ محمد کہتا تھا کہ میں باپ کے تخت پر بیٹھا ہوں۔ میرا نام تمام ممالک میں خطبہ کے اندر مسعود سے پہلے پڑھا جائے۔ یہ تو صرف بہانہ تھا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کو زیر کرنے پر آمادہ تھے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسعود نے حملہ کر کے غزنی کو فتح اور اپنے بھائی محمد کو قید کر لیا۔ قید کرنے کے بعد محمد کی دونوں آنکھوں کو بے بصارت کیا گیا۔ تخت غزنی پر جلوس کر کے سلطان مسعود نے بلوچستان و مکران پر حملہ کر کے اس علاقے کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ کسی سلطنت میں جب دو شہزادے تخت کے لیے لڑا کرتے ہیں تو ضرور سلطنت کے ہر حصے میں سرکش اور باغی طاقتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ محمد بن محمود کے اندھا ہونے کے بعد سلطان مسعود بن محمود کو اس وسیع اور عظیم الشان سلطنت کا سنبھالنا دشوار ہو گیا سلجوقی ترکوں نے بتدریج ترقی پا کر خوارزم کے علاقے میں لوٹ مار شروع کر دی ادھر ہندوستان و پنچاب میں بھی یہاں کے بعض صوبہ داروں نے تمرد و سرکشی پر کمر باندھی۔ اور یک لخت حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ سلطان مسعود نے بڑی ہمت اور استقلال سے کام لیا۔ خوارزم و خراسان میں سلجوقیوں کو متواتر شکستیں دیں اور انہی حالات میں موقعہ نکال کر ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا۔ اور سرستی و ہانسی کے زبردست قلعوں کو فتح کر کے مسمار کیا۔ ہندوستان سے فوراً غزنی کی طرف واپس گیا۔ تو دیکھا کہ سلجوقی پہلے سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ بر سر مقابلہ ہیں۔ مسعود نے ان کو ہر مرتبہ شکست دی لیکن وہ بھی ہر مرتبہ پھر سنبھل سنبھل کر اور لوٹ لوٹ کر مقابلے پر آتے رہے۔ سلطان مسعود کی فوج میں ہندئوں کی بہت بڑی تعداد بھرتی ہو گئی تھی۔ اور کئی ہندو اس کی فوج میں سپہ سالاری کے عہدے پر فائز تھے جن کے ماتحت بہت سی ہندو پلٹنیں اور ہندو رسالے تھے۔ مسعود کو ہندئوں کی فوجیں تیار کرنے اور ان کو فوجی تعلیم دے کر شائستہ بنانے کا خاص شوق تھا۔ چنانچہ اس نے کئی ہندو سرداروں کو محض اس لیے ہندوستان بھیجا کہ وہ ہندوستان سے اپنے بھائی بندوں کو فوج میں بھرتی کر کے لائیں۔ جب ہندوستان کے ہندو سپاہی غزنی پہنچے تو مسعود نے ایرانیوں اور افغانیوں سے زیادہ ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ اور ایک شخص مسمی تلک کو امیر الامرائی اور مہاراجگی کا خطاب دے کر سپہ سالار اعظم بنایا۔ یہ مہاراجہ تلک ایک ہندو حجام کا لڑکا تھا۔ لہٰذا اس کے مرتبہ کو سب سے زیادہ رفیع دیکھ کر اکثر امرائے دربار سلطان مسعود سے بد دل ہو گئے۔ اور