تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر فوج کشی کی تو اس کو شکست فاش دے کر گرفتار و اسیر کیا اور خراج کے وعدے پر رہا کر دیا۔ جے پال نے بد عہدی کی اور دوبارہ تین لاکھ کے لشکر جرار سے سبکتگین کے ملک پر حملہ آور ہوا۔ مگر سبکتگین نے صرف چند ہزار سپاہیوں کی مدد سے اس کا مقابلہ کیا۔ اور اس مرتبہ بھی اس کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ اور پھر اس سے اقرار اطاعت لے کر چھوڑ دیا۔ (جے پال کی لڑائیوں کا حال تاریخ ہندوستان میں مفصل لکھا جائے گا) نوح بن منصور نے اس کو ناصر الدین کا خطاب عطا کیا۔ اور اس کے بیٹے محمود کو سیف الدولہ کے خطاب سے مخاطب فرمایا۔ سبکتگین نے غزنی کی سلطنت کو بہت وسیع کیا۔ اور ۳۸۷ھ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا سبکتگین کے بعد اس کا بیٹا امیر اسمٰعیل بلخ میں تخت نشین ہوا۔ مگر چھ مہینے کے بعد اپنے بھائی محمود بن سبکتگین سے لڑ کر مغلوب و معزول ہوا۔ ۳۸۷ھ میں محمود بن سبکتگین غزنی کے تخت پر بیٹھا۔ خلیفہ قادر باللہ عباسی نے اس کو یمین الدولہ اور امین الملت کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ محمود غزنوی نے تخت نشین ہوتے ہی نہایت قابلیت کے ساتھ مہمات سلطنت کو انجام دینا شروع کیا۔ لوگوں نے عبدالملک سامانی بادشاہ بخارا کو محمود کے خلاف فوج کشی پر آمادہ کیا۔ محمود نے مجبوراً مقابلہ کیا۔ اور عبدالملک شکست کھا کر بخارا کی طرف بھاگا۔ بخارا پر ایلج خان یا ایلک خان بادشاہ کا شغر نے حملہ کر کے قبضہ کیا عبدالملک سامانی قید ہوا۔ محمود غزنوی نے ایلج خان بن بغرا خان پر حملہ کر کے اس کو بخارا سے بھگا دیا اور بخارا کو اپنی حدود مملکت میں داخل کیا۔ اس کے بعد مغلوں کے سردار طغا خان بن التو خان کو شکست دے کر اپنی سلطنت کے حدود کو بحر کا سپین (بحیرہ اخضر) تک پہنچا دیا۔ ولایت خوارزم پر بھی قبضہ کیا۔ سیستان و خراسان کے علاقے سبکتگین کے زمانے سے سلطنت غزنی میں شامل تھے۔ مجد الدولہ دیلمی کو مغلوب و اسیر کر کے رے اور اصفہان کی ولایتوں پر بھی قبضہ کیا۔ ادھر ہندوستان پر بھی اس کو مجبوراً بہت سے حملے کرنے پڑے۔ جن کی اصل حقیقت اور تفصیلی کیفیت تاریخ ہند میں لکھی جائے گی۔ غرضیکہ محمود غزنوی نے بہت جلد دریائے ستلج سے لے کر بحیرہ کا سپین تک اور ماوراء النہر سے لے کر بلوچستان و عراق تک ایک نہایت وسیع سلطنت قائم کر لی۔ محمود غزنوی براعظم ایشیاء کے نہایت نامور اور زبردست بادشاہوں میں شمار ہوتا ہے اس کے زمانے میں فارسی زبان کو خاص طور پر رونق حاصل ہوئی۔ عربی زبانوں کی ترویج و اشاعت میں جو مرتبہ حجاج بن یوسف ثقفی کو حاصل ہے۔ وہی مرتبہ فارسی زبان کی ترویج و اشاعت میں محمود غزنوی کو حاصل ہے۔ محمود غزنوی نہایت سچا پکا مسلمان۔ بے تعصب اور علم دوست شخص تھا۔ لیکن تعجب ہے کہ بعض اغراض خاص یا موجودہ حکومت و سلطنت کی مصلحتوں نے اس کو ہمارے زمانے میں مذموم متعصب لالچی۔ ظالم۔ سفاک اور ہندوئوں کا دشمن جانی مشہور کر دیا ہے۔ ان جھوٹی اور گمراہ کن باتوں کی حقیقت تاریخ ہند میں بے پردہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ‘ اسی کے زمانے میں فردوسی نے شاہنامہ لکھا تھا۔ ۴۲۱ھ میں محمود غزنوی نے وفات پائی۔ سبکتگین اور محمود غزنوی کو دربار سامانیہ سے امیر الامرائی کا خطاب حاصل تھا۔ مگر ۳۸۹ھ میں محمود غزنوی نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے عبدالملک سامانی کا نام خطبہ سے خارج کر دیا تھا اسی سال خلیفہ قادر باللہ عباسی نے اس کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا تھا۔ محمود غزنوی ۹ محرم ۳۶۱ھ کو پیدا ہوا تھا۔ ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ محمود