تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ امام مہدی کے نام سے تاریخ اسلام میں بہت سے دعوے دار اٹھے لیکن وہ تمام جھوٹے تھے۔ اصل امام مہدی جن کے بارے میں احادیث میں آخری زمانہ میں ایک خلیفہ ہوں گے جو مال و دولت بغیر حساب کتاب کے (لوگوں میں) تقسیم کریں گے‘ ان کا نام محمد‘ لقب مہدی اور ان کے والد کا نام عبداللہ ہو گا‘ وہ جناب رسول اللہe کی اولاد میں سے یعنی فاطمہr کی اولاد میں سے ہوں گے‘ وہ زمین پر سات سال تک حکومت کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الفتن و اشراط الساعۃ۔ جامع ترمذی‘ ابواب الفتن۔ ابودائود‘ کتاب المھدی وغیرہ) دیا۔ اہل کتامہ اس حال سے واقف ہو کر اپنے دل میں ڈرے کہ اب ہم حاکم افریقہ کے زیر عتاب آئیں گے۔ چنانچہ انھوں نے آپس میں مجلس مشورت منعقد کی کہ ابوعبداللہ کو اپنے ہاں سے نکال دیں یا ابراہیم بن احمد حاکم افریقہ کے پاس بھیج دیں۔ چونکہ کتامہ کے بہت سے مولوی لوگ بھی ابوعبداللہ کے معتقد ہو گئے تھے۔ انھوں نے مخالفت کی اور ابوعبداللہ کی مدد کو ضروری بتایا۔ انہیں لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ نکلا کہ اسی علاقہ کے ایک عامل حسن بن ہارون غسانی نے ابوعبداللہ کو اپنی حمایت میں لے کر شہر تازروت میں بلا لیا۔ ادھر کتامہ والوں نے بھی ابوعبداللہ کی حمایت اور امداد پر مستعدی ظاہر کی اور ابوعبداللہ کی طاقت اب پہلے سے سہ چند ہو گئی۔ حسن بن ہارون غسانی کی اسی زمانے میں ایک دوسرے سردار مہدی بن ابی کمارہ سے مخالفت ہو گئی اور نوبت لڑائی تک پہنچی۔ مہدی بن ابی کمارہ کا ایک بھائی ابو عبداللہ شیعی کا معتقد تھا۔ اس نے ابوعبداللہ کے اشارے سے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اس طرح ابوعبداللہ کی شان و شوکت اور بھی بڑھ گئی۔ اور حسن بن ہارون اس کو اپنا آقا سمجھنے لگا۔ ابراہیم بن احمد کے ایک زبردست سردار فتح بن یحییٰ نے فوج لے کر ابو عبداللہ پر حملہ کیا۔ اور شکست کھا کر قیروان کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے بعد ابوعبداللہ نے جابجا اپنے داعی پھیلا دیئے اور لوگوں کو جبراً و قہراً بھی ابوعبداللہ کا مرید و مطیع ہونا پڑا۔ اور ملک مغرب کے ایک حصے پر ابوعبداللہ کی حکومت مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئی۔ یہ سب واقعات صرف ایک یا ڈیڑھ سال کے عرصہ میں وقوع پذیر ہو گئے۔ ۲۸۹ھ میں سلطان ابراہیم اغلبی کے بیٹے ابوالعباس عبداللہ بن ابراہیم نے تخت نشین ہو کر اپنے بیٹے ابوخول کو ابوعبداللہ شیعی کے مقابلہ پر روانہ کیا۔ جیسا کہ اوپر سلطنت اغلبیہ کے حالات میں بیان ہو چکا ہے۔ اول ابوعبداللہ کو ابوخول کے مقابلے میں شکست و ناکامی ہوئی مگر کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ ابوخول کا خطرہ خود بخود دور ہو گیا۔ اور وہ (ابوخول) مقتول ہوا۔ ابوعبداللہ نے کتامہ کے متصل مقام انکجان کے نواح میں ایک شہر دار الہجرت کے نام سے آباد کیا۔ جب زیادۃ اللہ اغلبی خاندان کا آخری فرما نروا تخت نشین ہوا تو ابوعبداللہ کو شہروں کے فتح کرنے اور اپنی حکومت کے بڑھانے کا خوب موقعہ ملا۔ اور وہ لوگوں کو یہ بتانے لگا کہ امام مہدی کا اب بہت جلد ہی ظہور ہونے والا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنے معتمدین کو سلمیہ علاقہ حمص کی طرف عبیداللہ بن محمد حبیب کے پاس بھیجا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ محمد حبیب کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور اس کے انتقال کی خبر ابو عبداللہ شیعی کے پاس پہنچ گئی تھی۔ ابو عبداللہ کے فرستادوں نے عبیداللہ کے پاس پہنچ کر عرض کیا۔ کہ ملک مغرب میں آپ کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اب تشریف لے چلئے۔ چنانچہ عبیداللہ جو عبیداللہ المہدی کے نام سے مشہور ہوا۔ سلمیہ سے ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ عبیداللہ المہدی کے ہمراہ اس کا بیٹا ابوالقاسم اور ایک غلام بھی روانہ ہوا۔ ان سب سے سوداگروں کے ایک قافلہ کی شکل بنائی۔ اور سیدھے راستوں کو چھوڑ کر پیچیدہ راہوں کو اختیار کیا۔ جاسوسوں نے یہ