تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خبر عباسی خلیفہ مکتفی کے پاس پہنچائی کہ اس طرح فلاں شخص سلمیہ سے ملک مغرب کی طرف روانہ ہوا ہے۔ خلیفہ مکتفی نے ابوعبداللہ شیعی کی ملک گیریوں اور عبداللہ بن محمد حبیب کے اس طرح روانہ ہونے کے حالات سن کر ایک حکم عیسیٰ نوشتری گورنر مصر کے نام جاری کیا کہ اس حلیہ کا ایک شخص مصر کے اندر ہو کر ملک مغرب میں جائیگا۔ اس کو جہاں پائو گرفتار کر لو۔ عیسیٰ گورنر نے عبیداللہ کے قافلہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر وہ دھوکا کھا گیا۔ اور یہ یقین کر کے کہ یہ شخص عبیداللہ نہیں ہے۔ اس کو چھوڑ دیا۔ عبیداللہ طرابلس پہنچا اور یہاں سے اپنے آنے کی خبر ابوعبداللہ کے پاس مقام کتامہ میں پہنچائی۔ مگر ابھی عبیداللہ اور ابوعبداللہ کے درمیان زیادۃ اللہ اغلبی حاکم افریقہ حائل تھا۔ لہٰذا زیادۃ اللہ نے جابجا عبیداللہ کی گرفتاری کا بندوبست کر دیا تھا۔ عبیداللہ نے طرابلس سے جس شخص کے ہاتھ اپنے آنے کی خبر ابوعبداللہ کے پاس بھجوائی تھی۔ وہ ابوعبداللہ کا بھائی ابوالعباس تھا۔ جو مع دوسرے ہمراہیوں کے عبیداللہ کو لینے کے لیے بھیجا گیا۔ اور اس کے ساتھ سلمیہ سے آ رہا تھا۔ ابوالعباس اتفاقاً راستے میں قیروان کے اندر گرفتار ہو گیا۔ زیادۃاللہ نے اس کو جیل خانہ میں بھیج دیا۔ عبیداللہ مہدی کو جب ابوالعباس کے قیروان میں گرفتار ہو جانے کی خبر پہنچی تو وہ حواس باختہ ہو کر مقام قسطیلہ چلا گیا مگر وہاں بھی قیام مناسب نہ سمجھ کر مقام سجلماسہ میں پہنچا۔ سجلماسہ کا حاکم زیادۃ اللہ اغلبی کا خادم الیسع بن مدرار تھا۔ اس نے اول عبیداللہ کو ایک نووار دسوداگر سمجھ کر خاطر مدارات کی۔ لیکن جب زیادۃ اللہ کا حکم پہنچا کہ یہی شخص عبیداللہ ہے۔ اس کو گرفتار کر لو تو الیسع نے عبید اللہ کو فوراً گرفتار کر لیا۔ ابوالعباس قیروان کے جیل خانے میں اور عبیداللہ مہدی سجلماسہ کے جیل خانے میں قید ہو کر تین چار سال تک قید کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔ اس عرصہ میں ابو عبداللہ شیعی نے اپنی فتوحات کے سلسلے کو برابر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ اس نے بیسیوں لڑائیوں اور معرکہ آرائیوں کے بعد شروع ۲۹۶ھ میں دو لاکھ فوج فراہم کر کے تیز رفتاری کے ساتھ پیش قدمی جاری کی اور ماہ رجب ۲۹۶ھ میں شہر قیروان کو فتح کر کے اپنے بھائی ابو العباس کو جیل خانے سے نکالا۔ اور سجلماسہ کے قید خانے میں خفیہ طور پر ان فتوحات کی خوش خبری عبیداللہ مہدی کے پاس پہنچائی۔ ابوعبداللہ کی فوج میں کتامہ کے دوسر دار خاص طور پر قابل تذکرہ تھے۔ ایک عروبہ بن یوسف اور دوسرا حسن بن ابی خزیر۔ ابوعبداللہ نے قیروان پر قابض و متصرف ہو کر وہاں کے مکانات و محلات اہل کتامہ پر تقسیم کر دیئے۔ فتح کے بعد جب جمعہ آیا۔ تو جامع مسجد کے خطیب نے پوچھا کہ خطبہ میں کس کا نام لیا جائے۔ ابوعبداللہ نے کہا کہ فی الحال کسی کا نام نہ لیا جائے۔ اس کے بعد قیروان میں اپنے بھائی ابوالعباس کو حاکم مقرر کر کے سجلماسہ کی طرف بڑھا راستے میں جو جو قبائل آئے اکثر نے بخوشی اطاعت قبول کی بعض راستے سے ہٹ گئے۔ سجلماسہ کے قریب پہنچ کر ابوعبداللہ نے سجلماسہ کے حاکم الیسع بن مدرار کے پاس ایک خط بھیجا۔ اس خط میں بہت منت و سماجت اور فروتنی کے ساتھ درخواست صلح پیش کی۔ اس منت و سماجت اور صلح کی استدعا کا سبب یہ تھا کہ عبیداللہ مہدی اس کی قید میں تھا۔ اس لئے ابوعبداللہ کو اندیشہ تھا کہ کہیں وہ عبیداللہ کو قتل نہ کر دے۔ ابوعبداللہ کا قاصد خط لے کر جب الیسع مدرار کے پاس پہنچا۔ تو اس نے قاصد کو قتل کرا دیا۔ خط کو چاک کر کے پھینک دیا۔ اور فوجیں آراستہ کر کے مقابلہ کے لئے نکلا۔ مقابلہ ہوا۔ اور الیسع کی فوج شکست کھا کر بھاگی۔ الیسع اور اس کے ہمراہی بھی فرار ہوئے۔ ابوعبداللہ نے فوراً شہر میں داخل ہو کر