تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لگا۔ تو بعض یہودی الاصل اور مجوسی النسب لوگوں نے اپنے آپ کو علوی بتا کر فائدہ اٹھانا چاہا۔ بربر کا علاقہ مرکز سلطنت بغداد سے زیادہ فاصلہ پر تھا۔ اور بربری لوگوں کے مخصوص خصائل سے بآسانی فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ لہٰذا تیسری صدی ہجری کے آخری حصے میں محمد حبیب نامی ایک شخص نے جو سلمیہ علاقہ حمص میں سکونت پذیر تھا۔ اپنے آپ کو امام جعفر صادق کے بیٹے اسمٰعیل کی اولاد میں ظاہر کر کے حکومت و سلطنت کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ امام جعفر صادق کے زمانے سے ان کے داعی یمن۔ افریقہ اور مراکش میں مصروف کار تھے۔ اور لوگوں کو اس خیال کی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ کہ عنقریب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے اور وہ علوی فاطمی ہوں گے۔ محمد حبیب نے اپنے راز داروں میں سے ایک شخص رستم بن حسن بن حوشب کو یمن کی طرف بھیجا۔ کہ وہاں جا کر لوگوں کو اس بات کی تعلیم دے کہ امام مہدی بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں۔ چنانچہ رستم نے یمن میں جا کر اپنے کام کو نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ اور ایک جمعیت بھی فراہم کر لی۔ اس کے بعد محمد حبیب کے پاس بصرہ کا ایک شخص ابوعبداللہ حسن بن محمد بن زکریا جو شیعہ خیال کا آدمی تھا۔ اور ہمیشہ علویوں کی حمایت و طرفداری میں کوشاں رہتا تھا۔ آیا محمد حبیب نے اس کو مناسب تعلیم دے کر اور جو ہر قابل پا کر ہدایت کی کہ تم اول یمن پہنچ کر رستم بن حسن کی صحبت میں چند روز رہو اور دعوت و تبلیغ کے قاعدے اس سے سیکھو اور پھر وہاں سے علاقہ بربر کی طرف جائو اور وہاں اپنا کام شروع کرو۔ وہاں زمین تیار ہے۔ تم جا کر تخم زیزی شروع کرو۔ تم کو ضرور کامیابی ہو گی۔ ابوعبداللہ شیعی کو محمد حبیب نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ ہمارا بیٹا عبیداللہ امام مہدی ہے اور تم اس کے داعی بنا کر بھیجے جاتے ہو۔ ابوعبداللہ اول یمن پہنچا۔ وہاں چند روز رہ کر اور رستم بن حسن اور دوسرے داعیوں سے دعوت و تبلیغ کے اصول اچھی طرح سیکھ کر رخصت ہوا۔ موسم حج میں مکہ پہنچا۔ وہاں شہر کتامہ کے سرداروں اور رئیسوں سے جو حج کرنے آئے تھے۔ ملا‘ پھر انہی کے ہمراہ کتامہ پہنچا اور دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہو کر لوگوں کو اپنے زہد و عبادت کی نمائش سے گرویدہ بنایا۔ ابوعبداللہ شیعی ۱۵ ربیع الاول ۲۸۸ھ کو شہر کتامہ میں وارد ہوا اور بآسانی لوگوں کو امام مہدی کی آمد کا یقین دلانے لگا۔ چونکہ ابوعبداللہ شیعی سے پہلے بھی اس ملک میں علویوں کے داعی آ آ کر اس قسم کے خیالات کی اشاعت کر چکے تھے۔ لہٰذا ابو عبداللہ کو زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اہل کتامہ نے ابوعبداللہ شیعی کے لیے مقام فج الاخیار میں ایک مکان بنا دیا۔ یہ وہاں رہ کر لوگوں کو وعظ و پند کے ذریعہ تعلیم دینے لگا۔ اس نے اہل کتامہ کو یقین دلایا کہ امام مہدی۱؎ جس مقام پر آ کر قیام کریں گے اس مقام کا نام کتمان سے مشتق ہو گا‘ اس لیے مجھ کو یقین کامل ہے کہ وہ یہی مقام کتامہ ہے اور جو لوگ امام مہدی کے اعوان و انصار ہونگے وہ بہترین خلائق ہونگے۔ پس تم کو ان کا منتظر رہنا چاہیئے۔ اور تمہارا فرض ہے کہ ہمہ اوقات امام مہدی کی حمایت و اعانت کے لیے مستعد رہو۔ ابوعبداللہ کے آنے اور اس قسم کی تعلیم دینے کی اطلاع ابراہیم بن احمد بن اغلب سلطان افریقہ کو ہوئی۔ تو اس نے ابوعبداللہ کے پاس ایک حکم بھیجا کہ تم اپنی اس گمراہ کن تعلیم کو بند کرو۔ ورنہ تم کو سزا دی جائے گی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام اہل کتامہ اور ارد گرد کے قبائل ابوعبداللہ کے دل سے منعقد ہو چکے تھے۔ ابو عبداللہ نے اپنے آپ کو طاقتور پا کر سلطان کے اس ایلچی کو نہایت سخت جواب دے کر لوٹا