تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فوج لوشہ کی طرف کوچ کیا۔ ابوعبداللہ نے فردی نند کا استقبال کیا اور لوشہ پر اس کا قبضہ کرا کر بماہ جمادی الثانی ۸۹۱ھ قلعہ البیرہ۔ مثلین اوصخرہ کے محاصرہ کو روانہ ہوا۔ ان قلعوں پر بھی ابوعبداللہ محمد نے عیسائی افواج کی مدد سے قبضہ کر کے فردی نند کو دے دیا۔ اور سلطنت غرناطہ کا ایک بڑا اہم اور قیمتی حصہ جس کا فتح کرنا فردی نند کے لیے بے حد دشوار تھا۔ ابوعبداللہ محمد کی وجہ سے بآسانی قبضہ میں آ گیا۔ کیونکہ رعایا کے اکثر افراد ابوعبداللہ کو اپنا شہزادہ اور وارث تخت و تاج سمجھ کر اس کی مخالفت سے دست کش تھے اور عام طور پر مسلمانوں میں وہ جوش لڑائی کا پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جو ایک عیسائی حملہ آور کے مقابلے میں پیدا ہونا لازمی تھا۔ اب ان اہم مقامات کے نکل جانے پر مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں۔ اور انھوں نے دیکھا کہ ابوعبداللہ محمد تو عیسائی بادشاہ کا ایجنٹ ہے اور اس نے شہروں اور قلعوں پر قبضہ کر کے ان کو بادشاہ قسطلہ کے سپرد کر دیا ہے مقام نبیرین میں قیام کر کے اہل غرناطہ کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنا چاہا۔ یہاں یہ ریشہ دوانیاں جاری تھیں۔ ادھر اہل مالقہ نے سلطان زغل کی فرماں برداری کا ارادہ کر کے عیسائی حکومت کے تمام علامات کو مٹا دیا۔ فرڈی نند نے بماہ ربیع الثانی ۸۹۶ھ میں بذات خود ایک عظیم الشان فوج کے ساتھ مالقہ پر حملہ کیا۔ اور جنگی جہاز بھی ساحل مالقہ پر روانہ کئے۔ فرڈی نند کے اس حملہ کی خبر سن کر سلطان زغل غرناطہ سے مالقہ کی طرف مع فوج روانہ ہوا۔ ادھر ۱۵ ماہ جمادی الاول ۸۹۲ھ کو ابوعبداللہ محمد نے موقعہ پا کر اور غرناطہ کو خالی دیکھ کر اس پر قبضہ کر لیا۔ زغل نے جب یہ سنا کہ غرناطہ پر ابوعبداللہ محمد قابض ہو چکا ہے۔ تو وہ مالقہ کو فرڈی نند کے محاصرے میں چھوڑ کر خود غرناطہ کی طرف چلا راستے میں یہ معلوم کر کے کہ ابوعبداللہ محمد کا غرناطہ پر قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔ وادی آش میں ٹھہر گیا۔ اہل مالقہ نے عیسائیوں کے حملوں کو بڑی پامردی اور بہادری کے ساتھ روکا ساتھ ہی شاہ مراکش‘ شاہ تونس۔ شاہ مصر اور سلطان ترکی کو لکھا کہ اس وقت ہماری مدد کرو اور عیسائیوں کے پنجے سے چھڑائو۔ مگر کسی نے بھی ان کی مدد کے لیے کوئی فوج نہ بھیجی۔ {وَمَالَھُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّ لِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ} ’’اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی دوست اور مددگار نہیں۔‘‘ (البقرہ : ۲/۱۰۷) ہر طرف سے مایوس ہو کر ماہ شعبان ۸۹۲ھ میں مالقہ فردی نند کے حوالہ کر دیا۔ اہل مالقہ نے جب اپنی نااتفاقیوں اور خانہ جنگیوں کی پاداش میں ہر طرف سے مایوس ہو کر فردی نند سے صلح و امن کی درخواست کی تو اس نے کہلا بھیجا۔ کہ اب تمھارے پاس سامان رسد ختم ہو گیا ہے۔ نیز تم ہر طرف سے مایوس ہو چکے ہو لہٰذا بلا شرط شہر کی کنجیاں ہمارے پاس بھیج دو۔ اور ہمارے رحم و کرم کے امید وار ہو۔ جب فردی نند مالقہ پر قابض ہوا تو اس نے حکم دیا کہ ہر ایک مسلمان کو قید کر لو اور ان کے تمام اموال و جائداد ضبط کر لیے جائیں۔ چنانچہ پندرہ ہزار مسلمانوں کو تو عیسائیوں نے غلام بنایا باقی تمام باشندگان مالقہ کو بے سروسامانی کے عالم میں وہاں سے نکال کر جلا وطن کر دیا۔ ان میں بہت سے فاقہ اور بے سرو سامانی کے سبب ہلاک ہو گئے۔ بعض ساحل افریقہ تک پہنچے اور وہیں آباد ہوئے۔ مالقہ کے بعد فردی نند نے اس کے تمام نواحی شہروں اور قلعوں کو فتح کر کے وہاں کی تمام مسلم آبادی کو مقتول و جلا وطن کیا۔ اس کے بعد اس نے یکے بعد دیگرے ایک ایک شہر اور ایک ایک قلعہ کو فتح کرنا اور وہاں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا شروع کیا۔ وادی آش میں پہنچ کر جہاں سلطان زغل مقیم تھا۔ کوشش کی کہ کسی طرح زغل میرا شریک ہو جائے۔ ابوعبداللہ محمد جو