تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غرناطہ پر قابض ہو کر اب فردی نند کی پیش قدمی کو ناپسند کرتا اور غرناطہ اور اس کے نواحی رقبہ کو اپنے تخت حکومت میں رکھنا چاہتا تھا۔ اہل غرناطہ کی پامردی سے مقابلہ پر آنے اور عیسائیوں سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ اس حالت میں فردی نند نے زغل کو اپنا دوست بنانے اور غرناطہ کی حکومت دوبارہ دلوانے کا سبز باغ دکھایا۔ اور زغل مجبوراً یا حقیقتاً اپنے رقیب ابوعبداللہ محمد کی تباہی دیکھنے کے شوق میں وادی آش فردی نند کے سپرد کر کے اس کے ساتھ ہو لیا۔ غرض کہ اس عیسائی بادشاہ نے آخر وقت تک مسلمانوں کی تباہی میں مسلمانوں سے ہی امداد لینی ضروری سمجھی۔ زغل کے شریک ہونے سے فردی نند کا المیریہ پر بہ آسانی قبضہ ہو گیا۔ المیریہ اور وادی آش پر قبضہ ہونا گویا اندلس سے مسلمانوں کی حکومت کا نام و نشان گم ہونا تھا۔ اب صرف شہر غرناطہ اور اس کے مختصر مضافات ہی مسلمانوں کے قبضے میں رہ گئے۔ فردی نند نے ماہ صفر ۸۹۵ھ میں وادی آش اور المیریہ پر قبضہ کر کے سلطان زغل کو اپنے ہمراہ لیا تھا۔ اس وقت سلطان ابوعبداللہ قصر الحمراء میں اپنے چچا زغل کی اس بد انجامی کا حال سن کر خوش ہو رہا تھا۔ کہ اس کے قبضے سے تمام ملک نکل گیا۔ ابوعبداللہ کو یقین تھا کہ غرناطہ میں اب تنہا میری ہی حکومت قائم رہے گی۔ اور فردی نند غرناطہ کے لینے کی جرأت ہرگز نہ کرے گا۔ لیکن فردی نند نے ابوعبداللہ کو لکھا کہ جس طرح تمھارے چچا زغل نے اپنا تمام مقبوضہ ملک مجھ کو سپرد کر دیا ہے تم بھی قصر حمراء اور غرناطہ میرے سپرد کر دو۔ اس تحریر کے آنے پر سلطان ابوعبداللہ نے باشندگان غرناطہ میں سے بااثر اشخاص کو جمع کر کے فردی نند کے خط کا مضمون سنایا۔ اور کہا کہ زغل نے فردی نند کو غرناطہ کے لینے کی ترغیب دی ہے۔ اب ہمارے لیے دو ہی باتیں باقی ہیں یا تو غرناطہ اور قصر حمراء فردی نند کے سپرد کر دیں یا یہ کہ جنگ پر آمادہ ہو جائیں اہل غرناطہ ابوعبداللہ کی غداریوں اور نالائقیوں سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ اسی نے حکومت اسلامیہ کے برباد کرنے کے تمام سامان مہیا کئے ہیں۔ مگر اس حالت میں وہ بجز اس کے اور کسی بات پر متفق نہیں ہو سکتے تھے کہ عیسائیوں سے جنگ کرنی چاہیئے۔ چنانچہ سب نے جنگ کی رائے دی ابوعبداللہ کی دلی خواہش چاہے کچھ ہو مگر سب کو جنگ پر آمادہ دیکھ کر اس نے بھی اسی پر اپنی آمادگی ظاہر کی۔ یہاں یہ مشورے ہو رہے تھے۔ ادھر فردی نند شاہ قسطلہ اپنی عیسائی فوجوں کا ٹڈی دل لیے ہوئے آ پہنچا۔ اور آتے ہی ماہ رجب ۸۹۵ھ میں غرناطہ کا محاصرہ کر لیا۔ ادھر شہر والوں نے مدافعت اور مقابلہ پر کمر ہمت چست باندھی لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ عیسائیوں نے غرناطہ کے کئی نواحی قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ مگر مسلمانوں نے قدم قدم پر اس بے جگری سے مقابلہ کیا کہ عیسائیوں کے دانت کھٹے کر دئیے اور ان قلعوں کو جن پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا تھا واپس لے لیا۔ فردی نند نے یہ حالت دیکھ کر مناسب سمجھا کہ غرناطہ کی فتح کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کیا جائے۔ اور زیادہ ساز و سامان اور زیادہ سے زیادہ تازہ دم فوج لا کر محاصرہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ محاصرہ اٹھا کر چلا گیا۔ سلطان ابوعبداللہ نے اس فرصت کو غنیمت سمجھا اور اہل غرناطہ کو لے کر اس علاقہ کی طرف بڑھا جو عیسائیوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ بعض قلعوں کو فتح کر کے وہاں کی عیسائی افواج کو تہ تیغ کیا۔ اور مسلمانوں کی فوج وہاں مقرر کی۔ غرناطہ میں واپس آ کر پھر جنگی تیاری کی اور فوج لے کر بشرات کی جانب روانہ ہوا۔ یہاں کے بعض قصبوں کو اپنے قبضے میں لایا۔ اور قلعہ اندرش کو فتح کر کے عیسائی جھنڈا وہاں