تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا نقشہ بدل دیا۔ عیسائی بد حواس ہو کر بھاگے اور ہزار ہا لاشیں اس میدان میں چھوڑ گئے۔ ساتھ ہی عیسائیوں کا پورا توپ خانہ جو ان کے ساتھ تھا۔ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ ان حملہ آور عیسائیوں کے پیچھے بادشاہ فردی نند خود بھی ایک لشکر عظیم لیے ہوئے آ رہا تھا ان مفروروں کو راستے میں روک کر حالات معلوم کئے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ سلطان زغل نے انہیں توپوں کو جو عیسائیوں سے چھینی ہیں۔ قلعہ مثلین پر چڑھا کر اس کو خوب مضبوط کر لیا ہے۔ اور مدافعت کے لیے ہر طرح تیار ہے۔ یہ سن کر فردی نند کی ہمت نہ پڑی واپس چلا گیا۔ اور دوسرے قلعوں کو جو غیر محفوظ تھے۔ فتح کرتا اور اسلامی مقبوضات کو مختصر اور تنگ کرنے میں مصروف رہا۔ فردی نند کو باوجود کامیابیوں کے اس بات کا کامل یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی حکومت کا استیصال کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اور اگرچہ اسلامی ریاست کا رقبہ بہت ہی محدود و مختصر رہ گیا ہے۔ تاہم اگر مسلمان متحد و متفق ہو کر شمشیر بکف ہو جائیں گے۔ تو ان کے لیے تمام جزیرہ نمائے اندلس کا فتح کر لینا کچھ دشوار نہ ہو گا۔ جیسا کہ طارق و موسٰی کے زمانے میں مٹھی بھر مسلمانوں نے عیسائی سلطنت کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر پھینک دیا تھا۔ فردی نند کی اس مآل اندیشی اور دانائی نے اس کو چند روز کے لیے جنگی سرگرمیوں سے روک دیا۔ اور اس نے فریب و دغا سے کام لینا مناسب سمجھا اس کے پاس ابو عبداللہ محمد بن ابوالحسن جو جنگ نوشینہ میں گرفتار ہو کر آیا تھا موجود تھا۔ اس نے ابو عبداللہ محمد کو اپنے سامنے بلوا کر بڑی محبت و ہمدردی اور دل سوزی کی باتیں کیں۔ اور کہا کہ سلطنت غرناطہ کے اصل وارث و حق دار تو تم ہو۔ تمھارے چچا زغل نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ زغل کو بے دخل کر کے تم خود سلطنت غرناطہ پر قابض و متصرف ہو۔ اس کام میں تم کو جس قسم کی ضرورت پیش آئے میں امداد کو موجود ہوں۔ یہ بھی کہا کہ میری عین خواہش یہ ہے کہ میری ہمسایہ اسلامی سلطنت اچھی حالت میں رہے۔ اور ہمارے درمیان کبھی جنگ و پیکار کی نوبت نہ آئے۔ غرض ابوعبداللہ محمد کو خوب سبز باغ دکھا کر اور یہ وعدہ دے کر کہ جس قدر رعایا اور شہر تیرے قبضے میں آ جائیں گے۔ میں ان کو ہرگز کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائوں گا۔ مگر زغل کے قبضے میں جو ملک و شہر ہو گا۔ وہ اس سے ضرور چھین لینے کی کوشش کروں گا۔ کیونکہ زغل سے مجھ کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ابوعبداللہ محمد فردی نند سے رخصت ہو کر سیدھا مالقہ میں آیا اور یہاں کے لوگوں کو فردی نند کے عہد و مواثیق سے مطلع کر کے اپنی فرماں برداری کی درخواست کی مالقہ والوں نے یہ سمجھ کر کہ ہم ابوعبداللہ محمد کو اگر اپنا سلطان تسلیم کر لیں گے۔ تو عیسائیوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ فوراً اس کو اپنا سلطان تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ابوعبداللہ محمد نے اپنے قبضہ کو وسیع کرنا شروع کیا۔ زغل نے اس بغاوت کے فرو کرنے کی کوشش کی مگر ان عیسائیوں نے جو ابھی تک اسلامی ملک میں آباد اور مقام بیزین میں سب سے زیادہ موجود تھے۔ ابوعبداللہ کی حمایت و اعانت میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ آخر ایک نہایت اہم مقام لوشہ کو ابوعبداللہ نے اپنے چچا زغل سے طلب کیا کہ لوشہ کی حکومت مجھ کو سپرد کر دو۔ تو میں آپ کے ساتھ مل کر فردی نند پر حملہ کروں گا۔ زغل نے اپنی رعایا کے اکثر افراد اور بعض سرداروں کو اس طرح متوجہ دیکھ کر لوشہ ابوعبداللہ کو دے دیا۔ ادھر ابوعبداللہ نے لوشہ پر قبضہ کیا۔ ادھر فردی نند نے مع