تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو کر اس کے بیٹے ہشام کے زمانے میں ختم ہو چکا تھا۔ مگر اس کے بعد بھی ہر ایک فرماں روائے اندلس نے اس مسجد کی شان و شوکت اور زیب و زینت کے بڑھانے میں ہمیشہ خزانوں کا منہ کھلا رکھا۔ خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے بھی اس مسجد کی تعمیر و تکمیل میں چالیس اور پچاس لاکھ کے درمیان روپیہ خرچ کیا۔ اس مسجد کا طول شرق سے غرب تک پانچ سو فٹ تھا۔ اس کی خوبصورت محرابیں ایک ہزار چار سو سترہ سنگ مر مر کے ستونوں پر قائم تھیں۔ محراب کے قریب ایک بلند ممبر خالص ہاتھی دانت اور چھتیس ہزار مختلف رنگ اور وضع کی لکڑی کے ٹکڑوں سے بنا اور ہر قسم کے جواہرات سے جڑا ہوا رکھا تھا یہ ممبر سات برس کے عرصہ میں تیار ہوا تھا۔ خلیفہ عبدالرحمن نے اس مسجد کے قدیم میناروں کو گرا کر ایک نیا مینار ایک سو آٹھ فٹ بلند تیار کرایا تھا جس میں چڑھنے اور اترنے کے دو زینے میں ایک سو سات سیڑھیاں تھیں۔ اس مسجد میں چھوٹے بڑے دس ہزار جھاڑ روشنی کے جلا کرتے تھے۔ جن میں سے تین سب میں بڑے جھاڑ خالص چاندی کے اور باقی پیتل کے تھے۔ بڑے بڑے جھاڑوں میں ایک ہزار چار سو اسی پیالے روشن ہوتے تھے اور ان تین چاندی کے جھاڑوں میں چھتیس سیر تیل جلا کرتا تھا۔ تین سو ملازم اور خدام اس مسجد کے لیے متعین تھے۔۱؎ ۱؎ افسوس ظاہری خوبصورتی اور نمود و نمائش کا جذبہ تو بڑھتا گیا اور دینی روح اور ذوق ہم مسلمانوں کی عملی زندگی سے الا ماشاء اللہ ختم ہوتی چلی گئی۔ اب عام مساجد میں بھی زیادہ تر نمود و نمائش اور سجاوٹ تو ہوتی ہے لیکن دینی روح‘ خشوع و خضوع‘ تقویٰ وغیرہ کا ماحول بہت ہی کم ہوتا ہے۔ خلیفہ عبدالرحمن نے اپنی عیسائی بیوی زہرہ کے لیے قرطبہ سے چار میل کے فاصلے پر جبل العروس کے پر فضا دامن میں ایک رفیع الشان قصر تیار کیا یہ اس قدر وسیع عمارت تھی کہ اس کو بجائے قصر الزہرہ کے مدینۃ الزہرہ کہتے تھے۔ اس قصر کی وسعت کا اس طرح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کے احاطے کی دیواروں میں پندرہ ہزار بلند اور شاندار دروازنے تھے۔ یہ قصر ہمارے زمانے کے موجودہ رائج الوقت سکے کے اعتبار سے بیس کروڑ پچاس لاکھ روپیہ کی لاگت میں بن کر تیار ہوا تھا۔ لیکن اگر اس زمانے میں روپیہ کی ارزانی اور ضروریات زندگی کی گرانی کا لحاظ کیا جاوے۔ تو قصر الزہرہ کی لاگت ہم کو ایک ارب روپیہ سے کم نہیں بتلانی چاہیئے۔ اس قصر کا طول چار میل اور عرض قریباً تین میل تھا۔ ۳۲۵ھ سے اس قصر کی تعمیر شروع ہو کر ۳۵۰ھ میں پچیس سال کے اندر ختم ہوئی۔ دس ہزار معمار‘ چار ہزار اونٹ اور خچروں سے روزانہ اس کے بنانے میں کام لیا جاتا تھا۔ یہ قصر چار ہزار تین سو سولہ برجوں اور ستونوں پر جو سنگ مر مر وغیرہ قیمتی پتھروں کے بنے ہوئے تھے قائم تھا۔ ان ستونوں میں سے بعض ستون فرانس و قسطنطنیہ وغیرہ کے بادشاہوں نے ہدیۃ عبدالرحمن ناصر کی خدمت میں بھیجے تھے۔ عبداللہ‘ حسن بن محمد‘ علی بن جعفر وغیرہ انجینئروں کو بھیج کر سنگ مر مر کی ایک مقدار افریقہ سے منگوائی گئی تھی۔ ایک سب سے بڑا فوارہ جو سونے کا معلوم ہوتا تھا۔ اور اس پر نہایت خوش نما نقش و نگار تھے جو احمد یونانی اور ربیع پادری قسطنطنیہ سے لائے تھے۔ ایک فوارہ سنگ سبز کا ملک شام سے منگوایا گیا تھا۔ بارہ پرند اور چرند جانوروں کی صورتیں مختلف جواہرات اور سونے کی بنی ہوئی اس میں لگائی گئی تھیں۔ ہر جانور کے منہ اور چونچ میں سے پانی کا فوارہ بلند ہوتا تھا۔ اس فوارے میں کاریگر نے وہ دستکاری ظاہر کی تھی کہ یورپ کے جن سیاحوں نے ان کو دیکھا ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ کہ دیکھنا اور سننا تو بڑی بات ہے۔ خواب اور خیال کو بھی یہاں مجال دخل نہ