تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حسن خدمت کے صلہ میں منذر بن سعید کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر مامور کر دیا۔ معمولی مراسم کے بعد دربار برخاست ہوا سفیروں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ٹھہرایا گیا۔ اور بڑی شان دار مہمانی کی گئی۔ چند روز کے بعد قسطنطنیہ کی سفارت کو واپسی کی اجازت دی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی خلیفہ نے ہشام بن ہذیل کو اپنی طرف سے بطور سفیر شاہ قسطنطین کے پاس روانہ کیا اور اس کو ہدایت کر دی کہ قسطنطین سے ایک دوستانہ معاہدہ لکھوا لائے۔ چنانچہ ہشام بن ہذیل کامیابی کے ساتھ ۳۳۸ھ میں شاہ قسطنطنیہ سے ایک دوستانہ عہد نامہ لکھوا کر واپس قرطبہ میں آیا۔ اس کے بعد بادشاہ اٹلی‘ بادشاہ جرمن‘ بادشاہ فرانس‘ بادشاہ صقالیہ کے سفیر یکے بعد دیگرے دربار قرطبہ میں حاضر ہوئے۔ اور اپنے اپنے بادشاہوں کی طرف سے اظہار عقیدت بجا لائے۔ اور محبت و ہمدردی کے تعلقات پیدا کرنے کی درخواست کی۔ اور ہر ایک بادشاہ نے خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی چشم عنایت اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے منت و سماجت اور خوشامد میں کوتاہی نہیں کی۔ یورپ کا ہر ایک بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ عبدالرحمن میرا حامی و مددگار بن جائے تاکہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائوں۔ خلیفہ عبدالرحمن نے اپنے بیٹے حکم کو اپنا ولی بنایا تھا۔ دوسرا بیٹا عبداللہ نمار روزہ کی طرف زیادہ مائل اور الزاہد کے نام سے مشہور تھا۔ عبداللہ کو قرطبہ کے ایک فقیہ نے جن کا نام عبدالباری تھا بہکایا اور حکومت کی طمع دلا کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ خلیفہ عبدالرحمن اور حکم کو قتل کرنے کی ایک زبردست کوشش کی جائے۔ چنانچہ فقیہ عبدالباری اور عبداللہ نے مل کر خلیفہ اور ولی عہد کے قتل کرنے کی تیاری کی اس سازش میں اور لوگوں کو بھی شریک کیا گیا۔ ۱۰ ذوالحجہ ۳۳۹ھ یعنی بروز عیداضحیٰ اس سازش کا انکشاف ہو گیا اور خلیفہ مع ولی عہد قتل ہوتے ہوتے بچ گئے۔ خلیفہ نے اپنے بیٹے عبداللہ اور فقیہ عبدالباری دونوں گرفتار کر کے جیل خانے بھجوا دیا۔ پھر اسی روز اپنے بیٹے عبداللہ کو جیل خانے سے نکال کر قتل کرایا فقیہ صاحب نے جب عبداللہ کے قتل ہونے کا حال سنا تو خود ہی جیل خانے میں خود کشی کر کے ہلاک ہو گئے۔ ۳۴۲ھ میں رذمیر بادشاہ جلیقیہ کے فوت ہونے پر اس کا بیٹا اردونی چہارم تخت نشین ہوا اور خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی خدمت میں سفیر بھیج کر اپنی حکومت اور باپ کی جانشینی کی اجازت چاہی۔ خلیفہ نے اس کی تخت نشینی کو منظور کر کے اجازت نامہ بھیج دیا۔ ۳۴۵ھ میں فرڈی نند سردار قسطلہ نے اردونی چہارم کو اپنا سفارشی بنا کر خلیفہ کی خدمت میں اپنی مستقل ریاست و حکومت کے تسلیم کئے جانے کی درخواست بھیجی۔ خلیفہ نے فردی نند کی اس دوخواست کو منظور کر لیا۔ اور اس کو ریاست قسطلہ کا مستقل حاکم و فرمانروا بنا دیا۔ فردی نند اب تک ریاست جلیقیہ یعنی زدمیر کا ماتخت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ اردونی چہارم کو تحت نشین کرانے میں فردی نند نے خاص طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ اس لیے اردونی چہارم نے سفارش کر کے اس کو بھی مستقل فرمانروا اور خود مختار رئیس بنوا دیا۔ اس سے قبل یہ صورت پیش آ چکی تھی کہ شانجہ جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے اپنی آبائی ریاست لیون پر قابض ہو چکا تھا اور کئی برس سے ریاست لیون ریاست جلیقیہ سے جدا شانجہ کے تصرف میں تھی۔ ریاست نوار میں اس کی نانی طوطہ حکمران تھی شانجہ مٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو کر اس قدر موٹا ہو گیا تھا کہ گھوڑے پر چڑھنا تو بڑی بات ہے پیدل بھی دو قدم نہیں چل سکتا تھا۔ ۴۴۶ھ میں فردی نند اور اردونی چہارم نے مل کر شانجہ ریاست لیون سے بے دخل کر دیا۔ شانجہ اپنی نانی