تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے بڑی آسانی سے وہ عیسائیوں اور جرائم پیشہ لوگوں کو جمع کر سکا۔ نواح مالقہ میں پہاڑ کے ایک دشوار گذار مقام پر قلعہ بنا ہوا تھا اس قلعہ کو عمر بن حفصون نے اپنا قرار گاہ بنایا اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری کر دیا۔ ارد گرد کے شہروں اور قصبوں کے عاملوں نے بار بار اس پر چڑھائیاں کیں مگر ہر مرتبہ شکست یاب ہوئے۔ آخر ۲۶۷ھ میں دارالسلطنت قرطبہ سے ایک زبردست فوج اس کی سرکوبی کو روانہ ہوئی عمر بن حفصون نے براہ چالاکی اس فوج کی آمد پر درخواست صلح بھیجی اور اس بات کا وعدہ کیا کہ آئندہ لوٹ مار کرنے سے باز رہ کر علاقے میں امن و امان قائم رکھے گا چنانچہ اسی شرط پر وہ پہاڑی قلعہ اس کے قبضہ میں چھوڑ دیا گیا اور امن و امان قائم ہو گیا۔ ۲۶۸ھ میں سلطان محمد نے شہزادہ منذر کو ایک زبردست فوج دے کر شمال کی جانب بھیجا کہ اس طرف کے عیسائی سرکشوں کو سزا دی جائے۔ شمالی ریاستوں اور باغیوں کی حالت جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے یہ تھی کہ جب کوئی زبردست فوج اس طرف جاتی تھی تو اظہار اطاعت کرنے لگتے تھے۔ جب یہ فوج واپس ہوئی پھر تمرد و سرکشی پر قائم ہو گئے۔ چنانچہ شہزادہ منذر نے اول سرقسطہ پہنچ کر وہاں کے باغیوں کو درست کیا پھر البہ و قلاع وغیرہ کا رخ کیا۔ اس کے بعد لریدہ کی بدنظمی کو دور کر کے وہاں اسمٰعیل بن موسیٰ کو ناظم مقرر کیا اور واپس چلا آیا۔ منذر کے واپس ہوتے ہی حاکم برشلونہ نے اسماعیل پر حملہ کیا۔ اسماعیل نے کمال مردانگی سے مقابلہ کر کے اہل برشلونہ کو شکست دے کر بھگا دیا۔ ۲۷۰ھ میں عمر بن حفصون نے پھر بغاوت اختیار کی اور پہلے سے زیادہ طاقت بہم پہنچا کر علاقہ مالکہ کے امن و امان کو برباد کر دیا قرطبہ ہاشم نے عبدالعزیز وزیر اعظم ایک فوج لے کر عمر بن حفصون کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ کئی معرکے ہوئے۔ آخر ہاشم نے سلام و پیام کے ذریعہ عمر بن حفصون کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور اس کو معافی کا وعدہ دے کر اپنے ساتھ قرطبہ چلنے پر رضا مند کر لیا۔ عمر بن حفصون وزیر ہاشم کے ساتھ قرطبہ چلا آیا۔ وزیر ہاشم اس کی بہادری دیکھ کر خوش ہوا تھا اس نے سلطان محمد سے کہہ کر عمر بن حفصون کو افواج سلطانی کا سپہ سالار اعظم مقرر کرا دیا۔ اس کے بعد ۲۷۱ھ میں وزیر ہاشم عمر بن حفصون کو ایک زبردست فوج کے ساتھ ہمراہ لے کر شمال کی جانب متوجہ ہوا۔ وہاں اہل سرقسطہ پھر باغی ہو گئے تھے۔ اور ریاست السیٹریاس کی جانب سے خطرات پیدا ہو رہے تھے۔ عمر بن حفصون نے ان لڑائیوں میں بڑی شہرت و ناموری حاصل کی‘ اہل سرقسطہ اور عیسائیان السیٹریاس کو پیہم شکستیں دے کر اور خراج وصول کر کے یہ دونوں واپس ہوئے عمر بن حفصون کو حکومت اسلامیہ کی سپہ سالاری کچھ پسند نہ آئی کیونکہ اس طرح وہ اپنی ان امیدوں کو کہ دوبارہ گاتھک حکومت قائم ہو جائے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ راستہ ہی سے وہ فرار اور وزیر ہاشم سے جدا ہو کر بھاگا اور سیدھا اپنے اسی پرانے قلعے میں پہنچ کر مضبوط ہو بیٹھا۔ اس کے قدیمی دوست اور پرانے رفیق پھر آ آ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ ادھر عمر بن حفصون نے پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر نواح مالقہ میں خود مختارانہ حکومت شروع کی‘ ادھر عبدالرحمن بن مروان نے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اشبیلیہ اور اس کے نواحی علاقے میں لوٹ مار شروع کر دی۔ سلطان محمد نے اشبیلیہ کی طرف اپنے بیٹے