تاریخ اسلام جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ اسے شاید عیسائیوں نے اس کام پر ابھارا تھا۔ بہرحال یہ کفر کا مذہب تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو دین عرش سے نازل فرمایا تھا‘ وہ خالص اور شفاف ہے۔ اس میں کسی قسم کی آمیزش کا اختیار تو نبی کریمe کو بھی نہیں تھا کجا کہ جناب رسول اللہe کے کسی امتی کو ہوتا۔ سورہ الحاقہ‘ آیت ۴۴ تا ۴۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اگر ہمارے نبیe (دین میں) اپنی طرف سے کوئی بات جھوٹ بنا لیتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑتے‘ پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘ کتنی سخت تنبیہ ہے لیکن یہ دراصل امت کو خطاب ہے۔ کیونکہ انبیاءo سے ایسی توقع ہی ناممکن ہے‘ جن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لیتا ہے۔ مروان کی سرداری میں فراہم ہو گیا۔ سلطان محمد نے اس خطرہ سے آگاہ ہو کر اپنے وزیر ہاشم بن عبدالعزیز کو ایک فوج دے کر اس طرف روانہ کیا۔ عبدالرحمن نے ہاشم کو دھوکا دیا اور اس کے سامنے سے فرار ہوتا ہوا اپنے تعاقب میں ایسی جگہ ہاشم کو لے گیا جہاں کمین گاہ میں فوج چھپی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس فوج نے چاروں طرف سے یکایک حملہ آور ہو کر ہاشم کی تمام فوج کو کاٹ ڈالا اور ہاشم گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پہلے عبدالرحمن بن مروان نے الفانسو حاکم السیٹریاس سے خط و کتابت کر کے دوستی و محبت کا عہد نامہ لکھدیا تھا۔ اب اندلس کے وزیر اعظم کو گرفتار کر کے اس نے اپنے دوست الفانسو کے پاس بھیج دیا تھا‘ تاکہ اس کو عبدالرحمن کی طاقت و قوت کا اندازہ ہو سکے اور محبت و دوستی کے تعلقات استوار ہو جائیں۔ سلطان محمد کو جب اپنے وزیر کے گرفتار ہونے کا حال معلوم ہوا تو اس نے عبدالرحمن بن مروان کو ہاشم کی رہائی کی نسبت لکھا۔ ابن مروان نے ایک لاکھ دینار فدیہ طلب کیا۔ چند مہینے تک ہاشم قید میں رہا اور عبدالرحمن بن مروان و سلطان محمد کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی۔ آخر سلطان محمد نے اس بات کو منظور کر لیا کہ عبدالرحمن شہر بطلیوس اور اس کے نواحی علاقے پر قابض و متصرف رہے اور اس پر کوئی خراج بھی عاید نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی زرفدیہ ادا کر کے ہاشم کو چھڑایا جائے چنانچہ ہاشم جب چھوٹ کر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا حریف جس نے اس کو قید کر لیا تھا ایک نہایت مضبوط مقام پر خود مختار حاکم ہو گیا ہے اور باج و خراج سے بھی بالکل آزاد ہے ابن خلدون کا بیان ہے کہ وزیر ہاشم کی رہائی ڈھائی برس کے بعد ۲۶۵ھ میں ہوئی تھی۔ غرض عبدالرحمن بن مروان جو ایک معمولی باغی سردار تھا۔ اب اپنے آپ کو سلطان محمد کا ہمسر سمجھنے لگا۔ اس نے ریاست السیٹریاس سے اپنے تعلقات دوستی کو خوب بڑھایا یہ رنگ دیکھ کر ملک کے ہر حصے میں سرداروں نے بغاوت و سرکشی پر کمر باندھی اور رعب سلطنت خاک میں مل گیا۔ موسیٰ بن ذی النون گورنر شنت بریہ نے بغاوت اختیار کر کے طیطلہ پر حملہ کیا کہ اس کو اپنے قبضے میں لائے۔ اہل طیطلہ نے مقابلہ کر کے اس کو شکست دی۔ اس نے پھر حملہ کیا اور اس طرح ان کی زور آزمائی کا سلسلہ جاری ہوا۔ ادھر اسد بن حرث بن بدیع نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ سلطان محمد نے شہزادہ منذر کو فوج دے کر موسیٰ بن ذی النون کی طرف بھیجا۔ منذر کئی شہروں اور قلعوں کو فتح کر کے قرطبہ میں واپس آ گیا۔ غرض سلطان محمد کو بغاوتوں کے فرو کرنے اور فوجیں بھیجنے سے ایک روز بھی فرصت نہیں ملی۔ اسی نازک زمانہ میں عمر بن حفصون نامی ایک عیسائی نے خاص صوبہ اندلسیہ جزیرہ نمائے اندلس کے جنوبی و مشرقی علاقے کے پہاڑوں میں ڈاکوئوں کی ایک جمعیت اپنے گرد فراہم کی۔ عمر بن حفصون گاتھک خاندان کے سربر آوردہ اشخاص میں سے تھا۔ اس