دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہم سے گواہ طلب کرے تو کہتے کہ کیوں جی کیا ہم جھوٹ بولتے ہیں ؟ مگر وہاں تو یہ بات نہ تھی وہ تو اسلامی قوانین کے پابند تھے ۔چنانچہ حضرت علیؓ نے گواہ پیش کئے ۔ایک تو قنبر جو آپ کے آزاد شدہ غلام تھے، اور ایک آپ کے بیٹے ، امام حسنؓ۔قاضی شریح نے کہا کہ غلام آزادہ شدہ کی توشہادت معتبر ہے اور لڑکے کی شہادت باپ کی حق میں قبول نہیں ہے ۔حضرت شریح کا مذہب یہی ہے کہ اولاد کی شہادت باپ کے حق میں مقبول نہیں ۔اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اولاد کی شہادت معتبر ہے یا نہیں ۔ حضرت علیؓ کا مذہب یہ تھا کہ معتبر ہے اس لئے ان کو پیش کیا، اور شریح کے نزدیک معتبر نہیں ۔اور قاضی فیصلہ کے وقت اپنے ہی مذہب پر عمل کرے گا ، نہ کہ بادشاہ کے مذہب پر ۔ اس لئے شریح نے حکم دیا کہ زرہ یہودی کی ہے۔ حضرت علیؓ مقدمہ ہار کر عدالت سے ہنسی خوشی نکل آئے، کوئی تکدر اور رنج نہیں ہوا۔ یہودی نے دیکھا ، کہ باوجود یکہ یہ بادشاہ ہیں مگر میرے مقابلہ میں ان کا لحاظ نہیں کیاگیا ۔اس نے کہا کہ اگر یہ مذہب سچ نہ ہوتا تو اس میں اتنی حقانیت وبرکت اور نورانیت نہ ہوتی، بس کلمۂ شہادت پڑھ کر کہا کہ حضور آپ ہی کی زرہ ہے ۔میں مسلمان ہوتا ہوں حضرت علیؓ نے کہا کہ اب میں نے تم کو ہبہ کردی ۔وہ حضرت علیؓ سے بیعت ہوگیا ، اور جنگ صفین میں شہیدہوا۔ دیکھا آپ نے کہ ایک زرہ کے ادنیٰ معاملہ نے کیا کیا ۔ دیکھئے ہمارے بزرگ کیسے تھے کہ ان کی حالت کو دیکھ دیکھ کر لوگ مسلمان ہوتے تھے اور اب ہم کو دیکھ کر کوئی کافر ہوجائے تو تعجب نہیں ۔(الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۳۱؍ج۲) ہماری حالت ایسی ہے کہ آج کل معاملات میں بعض اعتبار سے ہم کافروں سے بھی گرے ہوئے ہیں ۔ہزاروں کافر ایسے نکلیں گے جو وعدہ کے پکے، عہد کے پورا کرنے والے ہیں ۔کسی پرانے انگریزیا ہندوکے پاس امانت رکھو تو دل میں کھٹک نہ ہوگی ۔اور مسلمان کے پاس رکھنے سے کھٹک ہوتی ہے ۔ صاحبو! اب لوگوں کو کافر پر زیادہ اعتماد ہے خواہ کھاہی جائے (خیانت بھی کرے) اور