دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
ہے کہ ہم اور کفارایک جگہ ہوکر اسلام کی اشاعت کریں … تومیں نے ان کو جواب میں لکھا کہ اب (یہ مضمون) شائع کردو کہ اگر وہ اپنے مدہب سے تعرض کریں تو ہم بھی ان سے ضرور تعرض کریں گے ۔ پھر ایک دوست نے مجھ کو یہ لکھا کہ اب وہ تعرض نہ بھی کریں ۔جب بھی ہم کو تعرض کرنا چاہئے ، کیوں کہ حقیقت میں وہ مسلمان نہیں مگر ہمارے سکوت(خاموش رہنے )سے مسلمانوں کو تو یہ خیال ہوگا کہ یہ مسلمان ہیں تو پھر جو کچھ لوگ انہیں کو اپنا مقتداء اور پیر خیال کریں گے ۔پھر اس سے لوگوں کو ہٹانا مشکل ہوگا ۔اس وقت میری آنکھیں کھل گئیں کہ بیشک میرا خیال غلط تھا ۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا کہ ہمارے مبلغین کو کیا کرنا چاہئے ۔ ان سے تعرض کرنے میں نقصان یہ تھا کہ کہیں دعوت کا کام ہی نہیں رک جائے ۔اور تعرض نہ کرنے میں یہ خیال ہوا کہ اگر لوگوں کو ایسی حالت میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس کے ہاتھ پر چاہیں اسلام لے آئیں چاہیں ہمارے ہاتھ پر ، یا مرزائیوں کے ہاتھ پر ، تو اسلام لانے کے بعد بعض نومسلموں پر ان کا اثر ہوجائیگا ۔پھر ان کو ہٹانا مشکل ہوگا ۔اس لئے مشورہ کیا گیا ۔غرض اس مصلحت کا بھی خیال تھا ۔کہ اگر اب نہ روکا جائے تو انجام کے اعتبار سے اس کا اچھا اثر نہ ہوگا ۔ اور اس مفسدہ (خرابی) کا بھی یہ خیال تھا کہ اس سے وہ نومسلم پریشان ہوں گے کہ ہم کدھر جائیں ۔ مشورہ میں بعض لوگوں نے یہ کہا کہ مقصود تودعوت ہے۔ تومرزائیوں (باطل فرقوں ) سے تعرض کرنا بھی تودعوت ہے اس کو کیوں ترک کریں ۔ مسلمان بنانا توہمارے ذمہ فرض نہیں ۔ ہمارا کام (صرف) دعوت وتبلیغ کرنا ہے ۔خواہ اس کا ثمرہ مرتب نہ ہو ۔اس کی پرواہ نہ کرنا چاہئے ۔ اوراب یہاں آکر معلوم ہوا کہ راجح یہی ہے کہ ان کا رد ضرور کیا جائے ۔ اور نتیجہ پر نظر نہ کی جائے اسی کو تو فرماتے ہیں :’’اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اعْلَمُ یَمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ‘‘اور ’’وَمَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ نُّوْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘۔ (واضح رہے اس قسم کی تبلیغ کا منصب صرف علماء کو ہے )۔ (آداب التبلیغ :ص ۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶)