دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
نقصان کرجائے ۔تو اسی طرح حق سبحانہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اپنے گھروالوں کو نماز کا حکم کیجئے ، باوجود یکہ حضرات ازواج مطہرات اس کی نہایت پابند تھیں اور ایسی کامل ولیات تھیں کہ ان کے فضائل قرآن پاک میں جابجا موجود ہیں ۔ ایک مقام پر توتصریح ہے کہ ’’یَانِسَائَ النَّبِی لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَائِ‘‘ کہ تم اور عورتوں جیسی نہیں ہو۔کیا اس طرح بے نمازیوں کے فضائل میں ایسا خطاب ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ مگر پھر بھی حکم ہوتا ہے :’’وَاْمُرْاَہْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ‘‘ کہ اپنے گھر والوں سے نماز کے لئے کہتے رہو،کہنا مت چھوڑو۔ واقعی کہنے کی بڑی برکت ہوتی ہے ۔دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے متقی اور نیک لوگ بھی چند روز کے بعد کچی کاٹ جاتے ہیں (سست پڑ جاتے ہیں ) کہنے سننے سے پھر تنبیہ ہوجاتی ہے ۔اور اسی لئے تو نیک صحبت کی تاکید آئی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل میں اس سے پختگی ہوتی ہے، صحبت صالح کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔چنانچہ نمازی آدمی بے نمازیوں کی صحبت سے چند دنوں میں بے نمازی ہوجاتا ہے ۔پس یاتو اپنے بڑوں کی صحبت میں رہو ۔ اگر بڑے میسر نہ ہوں تو چھوٹوں ہی کی صحبت میں رہو ۔بشرطیکہ وہ نیک اور صالح ہوں ۔ بڑے کے پاس رہنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے حالات کو دیکھ کر شوق پیدا ہوگا ۔اگر کوئی لغزش ہوجائے ۔تو وہ روک ٹوک کرے گا ۔اور چھوٹوں کی صحبت سے یہ فائدہ ہوگا کہ ان کے اعمال صالحہ کو دیکھ کر شرم آئے گی ۔کہ ہائے اتنے چھوٹے چھوٹے بچے تو کیا کچھ کرتے ہیں ،کس قدر خوفِ خدا ان میں ہے ۔کس پابندی سے احکام کو ادا کرتے ہیں اور ہم نہیں کرتے بڑے شرم کی بات ہے ۔ غرض جس طرح بڑے سے نفع ہوتا ہے کبھی چھوٹے سے بھی نفع ہوتا ہے، یہی راز ہے صحبت کا کہ اس سے عمل میں پختگی ہوتی ہے ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۰۸)