دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اس کو بیعت کرلیا اور تمام گناہوں سے یعنی کفر وشرک وغیرہ سے توبہ کرادی ۔ جب مولانا بیعت کرچکے تو کہنے لگا مولانا صاحب تم نے افیم سے توتوبہ کرائی نہیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ بھائی مجھے کیا خبر تھی کہ تم افیون بھی کھاتے ہو۔ اچھا تم جتنی مقدار میں افیون روزانہ کھاتے ہو اس کی گولی بناکر میرے ہاتھ پر رکھ دو ، چنانچہ اس نے گولی بناکر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر رکھ دی ۔مولانا نے اس کو دیکھا اور اس میں سے تھوڑا سا حصہ لے کر اس سے کہا کہ اتنی کھالیا کرو ۔ مقصد یہ تھا کہ بتدریج (آہستہ آہستہ)رفتہ رفتہ چھڑادی جائے گی، مگر جب قلب میں خد ا کی محبت آتی ہے تو افیون کیا سلطنت بھی چھوٹ جاتی ہے ۔اس نے کہا کہ مولانا صاحب اب کیاکھائوں گا اور یہ کہہ کر افیون کی ڈبی جیب سے نکال دی ۔اور بہت دور پھینک دی۔گھر پہونچ کر افیون کا تقاضہ ہوا ۔مگر اس نے نہیں کھائی ،آخر دست آنے لگے ۔مولانا کے پاس کہلا بھیجا کہ مجھے دست آرہے ہیں مگر میں توبہ نہیں توڑوں گا ۔چند روز میں دست بند ہوگئے جب بالکل تندرست ہوگیا ۔تومولانا کے پاس آکر سلام کیا ۔مولانا نے پوچھا کہ بھائی کون ہو؟ کہنے لگا جی میں افیم والا ، اور دو روپئے نکال کر مولانا کو دئیے ۔اور کہا کہ مولانا صاحب یہ افیم کے روپئے ہیں مولانا نے فرمایا کہ بھائی افیون کے روپئے کیسے؟ کہنے لگا میں دوروپئے کی ایک مہینے میں افیم کھاتا تھا ۔جب میں نے چھوڑ دی تونفس بہت خوش ہوا کہ دوروپئے مہینے بچے میں نے نفس سے کہا کہ میں یہ دوروپیہ تجھے نہ دوں گا میں اپنے پیر کو دوں گا۔ ہمت وہ چیز ہے کہ سب کچھ کر ادیتی ہے ۔ہمت والوں کے لئے گناہوں کا چھوڑ دینا بہت آسان ہے زیادہ سے زیادہ اس میں نفس کو تھوڑی سی تکلیف ہوگی ۔ہمت والوں نے توخدا کی راہ میں جانیں تک دے دی ہیں ۔ (الاتعاظ بالغیر، آداب انسانیت:ص ۱۶۱)