دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کہنے کا اثر ہوگا ۔خیر خواجہ صاحب نے بھی ان سے کچھ نہ کہا ، اور میں نماز پڑھ کر پھر ان کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔اور جس بشاشت سے باتیں کررہا تھا ۔اسی بشاشت سے اب بھی باتیں کرنے لگا میں نے ظاہری برتائو سے یہ بات بالکل ان پر ظاہر نہیں ہونے دی کہ مجھے آپ کے نماز نہ پڑھنے سے انقباض ہوا ہے ۔یا آپ کی حقارت میرے دل میں ہے ۔ ہر گز نہیں ۔ اس کے بعد دوسری نماز کا وقت آیا اور ہم اسی طرح نماز کو اٹھے اور نماز کے بعد میں پھر انہی ڈپٹی صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اسی نشاط سے پھر باتیں کرنے لگا ۔اس کا ان کے دل پر بہت اثر ہوا ، اور وہ نماز کے پکے پابند ہوگئے ۔اور ایک صاحب سے کہتے تھے کہ صاحب ریل کے سفر میں جب مولانا نماز کو اٹھے اور میں نہیں اٹھا تو مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میرے سرپر جوتیاں پڑرہی ہیں اور غضب یہ کہ مولانا نے مجھ سے ایک دفعہ بھی زبان سے یہ نہ فرمایا کہ آئو تم بھی نماز پڑھو۔ اگر یہ فرماتے تو میں کچھ عذر کردیتا جس سے شرمندگی کم ہوجاتی ، اور اس وقت میں یہ خیال کرتا تھا کہ شاید اب نماز پڑھ کر جو مولانا صاحب آئیں گے تونہ میرے پاس بیٹھیں گے اور نہ مجھ سے بات کریں گے مگر جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو بدستور (پہلے کی طرح) میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور اسی بشاشت (بے تکلفی) سے گفتگو کرنے لگے جیسے پہلے کررہے تھے ۔ توبخدا اس ادانے تو مجھے ذبح ہی کرڈالا۔ بھائی اس روز سے میں نماز کا پابند ہوگیا ہوں ۔ راوی نے جب ان کا یہ قول مجھ سے نقل کیا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ بتلائو اس وقت امر بالمعروف کا زیادہ اثر ہوتا یا خاموش رہنے کا زیادہ اثر ہوا؟ امر بالمعروف سے اتنا ہوجاتا کہ صرف وہ اس وقت نماز پڑھ لیتے ۔مگر یہ جو اثر ہوا کہ وہ شرمندگی سے ذبح ہوگئے اور عمر بھر کے لئے نماز ی بن گئے ۔یہ بے زبانی (اور نہ کہنے ) کا اثر تھا۔ تودیکھئے اس وقت ان کو کچھ نہ کہنے کا وہ اثر ہوا جو کہنے سے نہ ہوتا ۔ یہاں بے زبانی سے زیادہ اثر ہوا ۔