احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کہنے لگے کہ تمہاری شکایت ہوئی ہے کہ: ’’یہ کون ہیجڑہ سالے آئے تھے۔‘‘ دوسرے دن میں ذہنی طور پر تیار ہوکر گیا اورگزشتہ شکایت کا ہی ازالہ نہ ہوا۔ میرے اعتقادات، نظریات اورخلیفہ جی اور ان کے خاندان کے بارہ میں میرا مریدانہ حسن ظن بھی حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا اور میں نے واپس آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملازمت سے مستعفی ہوگیا۔ ازاں بعد مجھے رشوت کے طور پر لنڈن بھیجنے کی پیشکش ہوئی۔ مگر میں نے سب چیزوں پرلات ماردی۔‘‘ اب آپ (کمالات محمودیہ ص۵۵) سے ان کی تحریر کا متعلقہ حصہ ملاحظہ فرمائیں: ’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم ربوہ کے کچے کوارٹروں میں، خلیفہ صاحب ربوہ کے کچے ’’قصر خلافت‘‘ کے سامنے رہائش پذیر تھے۔ قرب مکانی کے سبب شیخ نورالحق ’’احمدیہ سنڈیکیٹ‘‘ سے راہ ورسم بڑھی تو انہوں نے خلیفہ صاحب کی زندگی کے ایسے مشاغل کا تذکرہ کیا۔ جن کی روشنی میں ہمارا وقف کار احمقاں نظر آنے لگا۔ اتنے کافی نہ تھی اور اب میں بفضل ایزدی علیٰ وجہ البصیرت خلیفہ صاحب ربوہ کی بداعمالیوں پر شاہد ناطق ہوگیا ہوں۔ میں صاحب تجربہ ہوں کہ یہ سب بداعمالیاں ایک سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے تحت وقوع پذیرہوتی ہیں اور ان میں اتفاق اور بھول کا دخل نہیں۔محاسب کا گھڑیال (نوٹ: محاسب کے گھڑیال سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو رات نو بجے کا وقت، عشرت کدے کے لئے دیا گیا ہے تو اس کی گھڑی میں بے شک ۹بج چکے ہوں، جب تک محاسب کا گھڑیال ۹ نہ بجائے، اس وقت تک وہ شخص اندر نہیں آسکتا) ان رنگین مجالس کے لئے سٹینڈرڈ ٹائم (Standard Time) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب نہ جانے کون سا طریقہ رائج ہے۔ میرے اس بیان کو اگر کوئی صاحب چیلنج کریں تو میں حلف مؤکد بعذاب اٹھانے کو تیار ہوں۔‘‘ والسلام! (بشیر رازی سابق نائب ایڈیٹر، صدرانجمن احمدیہ، ربوہ) یوسف ناز ’’بارگاہ نیاز‘‘ میں ’’ایک مرتبہ،جب کہ میاں صاحب چاقو لگنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے چند دن بعد مجھے ربوہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سامنے