احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
کی اس لئے ذرا کھل کر بات کیجئے۔ کہنے لگے تم میرے بیٹوں کے برابر ہو۔ تم سے کیا بات کروں۔ لیکن تمہارے اصرار پر حلفاً کہتا ہوں کہ ایک مرتبہ مرزامحمود احمد نے محفل رنگ وشباب سجائی ہوئی تھی کہ مؤذن نے آکر روایتی انداز میں آواز لگائی۔ ’’حضور نماز کے لئے‘‘ یعنی نمازکا وقت ہوگیا ہے تو حضور نے جو بڑے موڈ میں تھے، کہا: اک تے تہاڈیاں نمازاں نے یہہ ماریا اے یہ جملہ کمرہ خاص میں بیٹھے ہوئے تمام رندان بادہ خوار نے سنا اور کھلکھلا کر ہنس پڑے اور پھر موذن کو کہہ دیا گیا کہ نماز پڑھادی جائے حضور مصروف ہیں۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ یہی وہ لمحہ تھا کہ میں نے اس صنم کدہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور ایسی توبہ کی کہ پھر قادیان وربوہ کا رخ تک نہ کیا اور اگرچہ میری معاشی اور معاشرتی زندگی پر اس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں مگر زہر ہلاہل کو قند کہنے پر تیار نہیں ہوں۔ اس سے اس خانوادہ کو نعوذ باﷲ نبوت، رسالت، امامت اور اہل بیت کے مقام تک پہنچانے والے خود سوچ لیں کہ کیا انگور کو کبھی حنظٰل کا پھل لگ سکتا ہے اور اگر نہیں تو پھر مرزاغلام احمد کیسے نبی ہیں کہ جس اولاد کو وہ ذریت مبشرہ قرار دیتے رہے اور ان کے قصیدے لکھتے ہوئے یہاں تک کہتے رہے کہ ؎ یہ پانچوں جوکہ نسل سیدہ ہیں یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے وہ اپنی بدکرداری اور اپنی اندرونی محفلوں میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے میں اس مقام تک چلی گئی کہ اس کا تصور بھی کسی مسلمان کے حاشیہ خیال میں نہیں آسکتا۔ لارڈ ملہی اور ظفر اﷲ خاں لاہور کے سیاسی وسماجی حلقوں کے لئے چوہدری نصیر احمد ملہی المعروف لارڈ ملہی کانام اجنبی نہیں۔ وہ ون یونٹ کے دوران مغربی پاکستان کے وزیر تعلیم رہے اور پھر انہوں نے پنجاب کلب میں اپنا ایسا مستقل ڈیرہ بنایا کہ یہ ان کی دوسری رہائش گاہ بن کر رہ گئی۔ ان کا تھوڑا ہی عرصہ ہوا، انتقال ہوا ہے۔ ان کے بیٹے چوہدری افضال احمد ملہی ایڈووکیٹ لاہور بار کے رکن ہیں۔ لارڈ ملہی مرحوم نے ترقی پسندی سے لے کر بقول ممتاز کالم نگار رفیق ڈوگر آخری عمر میں مذہب کی طرف مراجعت کا بڑا طویل سفر کیا۔لیکن انہیں قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ