احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
مارچ ۱۹۰۶ء میں میرے پہلے خط کے جواب میں ہے۔ مرزاقادیانی نے قرآنی بینات سے صاف اغراض اور ارتداد شروع کر دیا تھا۔ اس لئے ’’ویل لکل افاکٍ اثیم یسمع اٰیات اﷲ تتلیٰ علیہ ثم یصر مستکبراً کان لم یسمعہا فبشرہ بعذاب الیم (الجاثیہ:۷،۸)‘‘ ہر ایک جھوٹے بدکار پر لعنت ہے۔ جو اﷲ کی آیتوں کو جو اس پر پڑھی جاتی ہیں۔ سنتا مگر تکبر سے اصرار کرتا ہے۔ گویا کہ اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ پس اس کے واسطے عذاب دردناک ہے۔ اس قرآنی ارتداد اور مباہلہ کے بعد جو مرزاقادیانی کی حالت ہوئی۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی کے الفاظ جو اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔ ’’کافی عرصہ تین چار ماہ سے میری طبیعت نہایت ضعیف ہوگئی ہے۔ بجز دو وقت ظہر وعصر کے نماز کے لئے بھی مسجد میں نہیں جاسکتا اور اکثر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں۔ اگر ایک سطر بھی لکھوں یا کچھ فکر کروں تو خطرناک دوران سر شروع ہو جاتا ہے اور دل ڈوبنے لگ جاتا ہے۔ جسم بالکل بیکار ہو رہا ہے۔ جسمانی قوائے ایسے مضمحل ہوگئے ہیں کہ خطرناک حالت ہے۔ گویا مسلوب القوائے ہوں اور آخری وقت ہے۔ ایسا ہی میری بیوی دائم المرض ہے۔ امراض رحم وجگر دامنگیر ہیں۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍مئی۱۹۰۶ء) ’’حضرت اقدس (مرزاقادیانی) کی طبیعت بدستور ناساز رہی۔ تکلیف درد پاکی ہے۔ نقرس کا درد بتایا جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ رحم فرماوے۔‘‘ (الحکم مورخہ ۳۰؍جون ۱۹۰۶ء) اس ہفتہ حضرت اقدس کی طبیعت زیادہ علیل رہی۔ (البدر مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء، ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء) کو اس کا مبشر بیٹا مبارک احمد فوت ہوگیا۔ خان صاحب فتح محمد خان صاحب منیجر مطبع عزیزی کا مضمون ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب کی سہ سالہ پیش گوئی جو انہوں نے ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو کی تھی۔ مرزائی اصولوں کے مطابق پوری ہوچکی۔ اصل پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’مرزا مسرف کذاب ہے اور عیار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔‘‘ اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔ مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ اور الہامات جو اخبارات بدر والحکم میں شائع ہوتے رہے۔ ان سے ظاہر ہے کہ جس بناء پر مرزاقادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم خاں سے خلاف کیا۔ اس عرصہ میں اس نے اس سے صاف رجوع کیا۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان سے خوابوں میں بھی ڈرتا رہا۔ الفاظ ذیل اس کے منہ سے نکلے۔ ’’اے سیف تو اپنا رخ پھیرے۔‘‘ (تذکرہ طبع سوم ص۶۸۲، الحکم مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۶ء)