احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اخلاقی اور روحانی لحاظ سے کس قدر روح فرسا اور مکروہ اور ناقابل تسلیم نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر نفسیاتی اعتبار سے یہ حقیقت شہوانی بے اعتدالیوں کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض عینی شاہدوں نے ہمارے روبرو اس قسم کے مکروہ حقائق کا اعتراف کیا ہے۔ مگر یہ پروپیگنڈے اور اندھی عقیدت کی کرشمہ سازی ہے کہ کسی مرید سے جاکر پوچھو تو وہ فوراً خجالت کے مارے یہ کہہ کر بھاگ جائے گا کہ جناب مطہر لوگوں پر اس قسم کا گند اچھالا ہی جاتا ہے اور پالتو مولویوں نے تو اس قسم کے جعلی اور گمراہ کن قصے ازبر کئے ہوئے ہیں۔ ’’نعوذ باﷲ من ہذا الخرافات‘‘ غرض یہ ایک اور ظلم ہے کہ جو ان لوگوں اور ان کے سرغنہ کی بدولت جو مطہرین واتقیا پر ہو رہا ہے۔ بھلااس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ جملہ روحانی قدروں کو مشکوک بناکر رکھ دیا جائے۔ یہ درندے ہر مزکی پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور یہ سانپ ہر متقی کو ڈس رہے ہیں۔ لیکن ہم ان خطاب یافتہ پالتو مولویوں کو کس طرح سمجھائیں… مرزامحمود کی قلابازی مسلمانوں کے معصوم بچوں کو ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں سے تشبیہ دے کر ان کے جنازوں تک کو ناجائز قرار دیتے رہے اور جب محاسبہ کا وقت آیا تو یہ اولوالعزم خلیفہ گھبرا کر ریشہ خطمی ہوگئے اور اگرچہ مگرچہ چونکہ چنانچہ کی فرسودہ اور رکیک تاویلات کی آڑ لے کر بمشکل تمام اپنے پچاس سالہ عقائد سے جان چھڑائی۔ غرض کوئی دین ہوتا تو اس پر قائم رہتے۔ ایک خانہ ساز بات تھی جب حالات سازگار نظر آئے۔ اقرار کر لیا اور جب ذرا دگرگوں دکھائی دئیے انکار کر دیا۔ خلیفہ خود تو کسی دین کے پیرو نہیں۔ البتہ جو بات ان کے منہ سے نکل جائے وہ پالتو مولویوں کی بدولت دین بن جاتی ہے۔ فی الحال ہمارے مدنظران کے خود ساختہ عقائد کا بطلان نہیں کہ یہ کام خادمان مسیح یعنی لاہور کے پاک ممبر بوجہ احسن سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم اس تحریر کے ذریعہ خلیفہ کے دعاوی کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو ان کے اصل مقام سے روشناس کروانا چاہتے ہیں کہ جو خداتعالیٰ کے کلام میں ان کے لئے متعین اور مخصوص کیاگیا ہے۔ کاٹھ کی ہنڈیا چونکہ خلیفہ کے پرانے عقائد کی قلعی ۱۹۵۳ء میں برسر عدالت کھل گئی تھی اور ان کے عقائد محاسبہ کی ٹھوکر سے ایسے گرے کہ گرتے ہی چکنا چور ہوگئے۔ دنیا ان جعلی عقائد کی تباہی وبربادی پر انگشت بدنداں تھی۔ کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چولہے پر رہتی۔ آخر جلنا تھا جل گئی اور خلیفہ