احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
سدومیت اور ربوہ، ایک رات میں ۱۷… تقسیم برصغیر سے قبل قادیان اور سدومیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ تھاا ور آج کل سدومیت ربوہ کی کاٹیج انڈسٹری ہے۔ جائے رہائش سے محروم، قبائلی معاشرے میں جکڑے ہوئے، معمولی تنخواہوں پر ’’خدمت دین‘‘ کا فریضہ سرانجام دینے والے ملازمین یا ملزمان ایک لمبے عرصے تک رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے محروم رہتے ہیں اور انہیں ایک ایسی بستی میں رہنا پڑتا ہے جہاں نہ کوئی پارک ہے نہ سینما، نہ ہوٹل ہے نہ تھیٹر، وہاں زندگی کی تمام آسائشیں صرف ایک خاندان کے لئے وقف ہیں۔ جو دوسروں کو تو اس امر کی نصیحت کرتا ہے ؎ مرد وہ ہے جو جفاکش ہو گل اندام نہ ہو لیکن خود موسم گرما کی پہلی کرن پڑنے پر بھوربن کی طرف بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور گاہے ماہے ’’مہمات دینیہ‘‘ کی سرانجام دہی کے لئے یورپ اور امریکہ میں گلچھرے اڑاتا پھرتا ہے۔ اب مجبور مریدوں کے لئے تفریح کا سوائے اس کے کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ عجمی ذوق سے اپنا دل بہلائیں۔ اس لئے وہ دوران سال تو تعلیمی اداروں کے طلباء سے دل بہلاتے ہیں اور پھر ورائٹی کی تلاش میں اپنے ’’ظلی حج‘‘ یعنی سالانہ میلے کا انتظار کرتے ہیں اور اس ’’روحانیت سے معمور‘‘ موقع پر ڈیوٹی پر متعین نوجوان اپنے ساتھیوں اور ’’افسروں‘‘ کا نشانہ ستم بنتے ہیں اور اکثر وبیشتر تو خود اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ ان کی ’’آتش شوق‘‘ انہیں بے چین کئے رکھتی ہے۔ میلے کے موقع کے علاوہ خدام الاحمدیہ کے اجتماعات اور تربیتی کلاسیں اس ’’فن شریف‘‘ کے مظاہرے کے دن ہوتے ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں ایسی ہی ایک تربیتی کلاس کے موقع پر ایک ہی رات میں ’’اساتذہ اور طلباء‘‘ کی سترہ ایسی وارداتیں ہوئیں، جن کی ازاں بعد انکوائری ہوئی۔ مگر اس تحقیق کا مقصد بھی نئے شکاروں کی تعیین کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سو کچھ نہ ہوا۔ ایسی ہی ایک تربیتی کلاس کے موقع پر خلیفہ ربوہ کے ایک پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک نہایت قریبی عزیز اور ایک سابق مبلغ نے جو آج کل سی۔ڈی۔اے راولپنڈی میں ملازم ہیں، مجھے بتایا کہ میں نے اپنے ایک شاگرد کو تربیتی کلاس میں شمولیت کے لئے ربوہ بھیجا ہے۔ لیکن اسے یہ ہدایت کر دی ہے کہ وہاں اساتذہ کرام امرد پرستی کے شائق اور ایرانی مذاق کے رسیا ہیں۔ وہ ضرور تم پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشس کریں گے۔ اس لئے اگر ایسا کوئی موقع پیش آجائے تو تم بچ بچا کر آجانا تو یہ خدمت میں سرانجام دوں گا۔