احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
رفیع احمد صاحب ابن میاں محمود احمد صاحب کے خطوط پر مختصر سا تبصرہ کرتا ہوں۔ مسیح موعود کی صداقت اور بدکار کا عبرتناک انجام ان خطوط میں مکرم مرزاعبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا لکھتے ہیں کہ: ’’الزام لگانے والوں نے اس شخص (یعنی مرزامحمود احمد صاحب ناقل) کے ساتھ اﷲتعالیٰ کے سلوک کو نہیں دیکھا۔ جو ان الزامات کی پوری تردید کرتا ہے۔‘‘ اب ہم دیکھتے ہیں کہ: ’’اس انسان‘‘ کے ساتھ خداتعالیٰ کا سلوک مرزاغلام احمدقادیانی مجدد صدی چاردہم کی مندرجہ ذیل تحریرات کی روشنی میں کیا ہوا۔ ۱… ’’فالج نہایت سخت بلا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۲۳، خزائن ج۲۲ ص۲۳۳) ۲… ’’فالج نہایت سخت دکھ کی مار ہے۔ قہر ہے غضب الٰہی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۶،۶۷ ملخص، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) ۳… اور خود خداتعالیٰ نے فرمایا: ’’اے عبدالحکیم تو مفلوج ہونے سے بچایا جائے گا۔ کیونکہ اس میں شماتت اعداء ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۷۶،۶۷۷، طبع سوم) ۵… ایک شخص ڈوئی نامی امریکہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ اپنے شہر صحوان سے نکالا گیا۔ کئی لاکھ کی جائیداد سے بے دخل ہوا اور آپ مرض فالج میں گرفتار ہوگیا اور اب وہ ایک قدم چل نہیں سکتا۔ ہر ایک جگہ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور امریکہ کے ڈاکٹروں نے رائے دی ہے کہ اب یہ قابل علاج نہیں۔ (حقیقت الوحی ص۲۱۶، خزائن ج۲۲ ص۲۲۶ ملخص) ان مذکورہ بالا حوالا جات کی رو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جھوٹا دعویٰ کرنے والا اگر فالج کا شکار ہو جائے، اپنے شہر سے نکال دیا جائے، جائیداد سے بے دخل ہو جائے اور وہ چلنے کے قابل بھی نہ رہے اور ڈاکٹر اس کو لاعلاج قرار دے دیں تو سمجھ لو کہ خداتعالیٰ نے اس پر غضب الٰہی نازل کیا۔ سو عرض ہے کہ مرزا (عبدالحق سرگودھا) ایڈووکیٹ صاحب کے خلیفہ ثانی کے ساتھ خداتعالیٰ کا سلوک بمثل ڈوئی آف امریکہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے شہر قادیان سے نکالے گئے۔ لاکھوں کی جائیداد سے بے دخل ہوئے اور ۲۶؍فروری ۱۹۵۵ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ وہ اپنا ایک قدم بھی زمین پر رکھنے کے قابل نہ تھے اور ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ آخر کار اسی مرض میں گیارہ سال مبتلا رہ کر ۸؍نومبر ۱۹۶۶ء کو وفات پاگئے۔ خلیفہ صاحب خود ہی اپنی کتاب دعوت الامیر میں فالج کو غضب الٰہی قرار دے چکے ہیں۔ خود اپنے بارہ میں یوں لکھتے ہیں: ’’۲۶؍فروری ۱۹۵۵ء کو مجھ پر فالج کا حملہ ہوا۔ اب میں عملاً بیکار ہوں۔‘‘ (اشتہار ۱۹۵۵ء)