احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
میر محمد اسحق کی وفات کا قصہ میر محمد اسحق، میرناصر۱؎ کے لڑکے تھے اور مرزامحمود احمد کے ماموں، میر صاحب ایک اعلیٰ درجے کا مقرر اور مناظر تھے۔ حدیث کا درس اقصیٰ میں دیا کرتے تھے۔ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے اور مہمان خانے کے بھی انچارج تھے۔ اعلیٰ مقرر ہونے کی وجہ سے مرزامحمود احمد موصوف کو تقریر کرنے کے لئے سٹیج پر نہیں آنے دیتے تھے۔ مہمان خانہ میں درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ میرصاحب کی مقبولیت بڑھ جانے کی وجہ سے درس قرآن بھی بند کروادیا۔ مرزامحمود احمد نے ایک جمعہ کے خطبہ میں مصلح موعود (خدا کا مامور ہونے کا دعویٰ ہے) ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ بقول مولوی عبدالمنان عمر چند مخصوص دوست میر محمد اسحق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو کہنے لگے۔ لو اب اس بدکار نے بھی مصلح موعود (مامور) ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ نامعلوم یہ خبر مرزامحمود احمد تک کیسے پہنچ گئی۔ سازش سے شاہ ولی اﷲ کی زیرصدارت کسی معاملہ پر مشورہ کرنے کے لئے ایک اجلاس بلایا۔ اجلاس کے اختتام پر حاضرین اجلاس کو چائے دی گئی۔ میر صاحب کی چائے میں سم قاتل ملادیا گیا۔ دفتر سے نکل کر چوک میں آئے ہی تھے گر کر جان دے دی۔ منہ سے خون جاری تھا۔ ان کے بھائی میرڈاکٹر محمد اسماعیل کو وفات کا علم ہواتو موقع پر آئے تو ان کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ ’’میرے بھائی کو زہر دیا گیا ہے۔‘‘ سارہ اور ام وسیم پاگل ہوگئیں کون سی عورت ہے جو یہ پسند کرے کہ اس کا خاوند دوسری عورتوں کے پاس جائے۔ اس سے بڑھ کر اس کا خاوند دوسروں سے ہم بستری پر بھی مجبور کرے۔ سارہ اور ام وسیم بھی ان بدنصیب عورتوں میں سے تھیں۔ جو مرزامحمود احمد کے عقد نکاح میں آئیں۔ پھر ان کی دوسروں کے ہاتھوں عصمت تارتار ہوئی۔ کرہاً مسلسل گناہ کی زندگی گزارنے کی وجہ سے بقول ڈاکٹر محمد احمد حامی پاگل ہو گئی تھیں۔ ۱؎ میرناصر نواب دہلی کے رہنے والے تھے۔ ملازمت کے سلسلہ میں قادیان کے قریب ایک نہر پر کام کرنے والے مزدوروں پر ہیڈ سپروائزر تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد قادیان میں سبزی کی دکان کھول لی تھی۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی کی پہلی بیوی سے جدائی ہوگئی۔ خاندان میں سے کوئی شخص بھی مرزاقادیانی کی بیکاری کی وجہ سے لڑکی دینے پر رضامند نہ ہوا تو کسی نے میرناصر نواب کی لڑکی سے مرزاقادیانی کی شادی کروادی۔ اس کے دوبیٹے تھے۔ میر محمد اسحق اور میر محمد اسماعیل۔