احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
نہیں بولتے تھے اور کسی واقعہ کے بیان میں ان کی ذات بھی ہدف بن جاتی تھی تو وہ اسے بچانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کلاسک پر کھڑے کھڑے بات چل نکلی تو میں نے ان سے چوہدری ظفر اﷲ خاں کے کردار کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے طالب علمی کے دور میں میں نے شاہنواز، (شاہنواز موٹرز اور شیزان والے) سے اس بارے میں پوچھا تو چونکہ وہ میرے بہت قریبی دوست اور عزیز تھے۔ اس لئے بے ساختہ کہنے لگے یار وہ تو جب آتا ہے، جان ہی نہیں چھوڑتا اور اس نے مجھے اپنی بیوی کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ لارڈ ملہی نے مزید بتایا کہ: ’’انہی ایام میں ظفر اﷲ خان نے مجھے بھی پھانسنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن میں اس کے قابو میں نہیں آیا۔‘‘ یہ ہے جنرل اسمبلی میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، قائداعظم کا اپنے نام نہاد عقائد ونظریات کی خاطر جنازہ نہ پڑھنے والے اور اپنے آپ کو ایک کافر حکومت کامسلمان وزیر یا ایک مسلمان حکومت کا کافر وزیر قرار دینے والے کا اصل کردار اور یہ صرف ظفر اﷲ خاں ہی سے مخصوص نہیں ہر بڑا قادیانی دہرے کردار کا مالک ہوتا ہے۔ امرود کھانے کا مصلح موعودی طریقہ انگریزی اور اردو زبان کو یکساں قدرت کے ساتھ لکھنے کے ساتھ ساتھ فلسفہ سیاست کے علاوہ فلم، موسیقی اور آرٹ پر گہری نگاہ رکھنے والے معدودے چند نامی صحافیوں میں احمد بشیر کی شخصیت اپنی ایک چمک رکھتی ہے۔ وہ اپنے صاف ستھرے کردار، اکھڑ پن اور ہر حالت میں سچ کہہ کر اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتے رہنے کی عادت کے باوصف حق گوئی وبے باکی میں ایک ایسا مقام رکھتے ہیں کہ اس عہد میں اس کی مثالیں اگر نادر الوجود نہیں تو خال خال ہوکر ضرور رہ گئی ہیں۔ ان سے ایک مرتبہ قادیانی امت کے مصلح موعود کے عجائب وغرائب کی ذیل میں آنے والے احوال وظروف کا تذکرہ ہورہا تھا تو انہوں نے مرزامحمود احمد کے عشرت کدہ خلافت سے آگاہی رکھنے والے اپنے ایک قادیانی دوست کے حوالے سے بتایا کہ مرزامحمود احمدکو معکوس عجمی ذوق کی عادت بھی تھی اور ایک مرتبہ وہ بقول اس قادیانی دوست کے اس عمل سے بھی گزر رہے تھے اور ساتھ ساتھ امرود بھی کھاتے جارہے تھے۔ احمد بشیر صاحب خدا کے فضل وکرم سے زندہ موجود ہیں اور اس روایت کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ میں اس پر صرف یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اس نوع کے افعال