احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
اور ان کی جماعت نے جو طریق اختیار کر رکھا ہے وہ اس خطا کار ماںکا ہے۔ جو اپنے مجروح دل بیٹے کی علیحدگی کو سوسائٹی کے سامنے اس طرح پیش کرتی ہے۔ جیسے اس بیٹے نے صالح ماں کے خلاف بغاوت کی ہے اور ماں کی اطاعت اور احترام نہ کر کے حضور سرور کائناتﷺ کی تعلیمات کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ بیٹا شرم کے مارے سربگریباں ہے۔ کیونکہ جو کچھ وہ اپنے روّیے اور احتجاج کے حق میں کہے گا۔ اس میں اس کی ماں کی عصمت کا معاملہ طشت ازبام ہوتا ہے۔ جب سماجی دباؤ سے وہ اذیت ناک حقیقت کا اظہار کرتا ہے تو ماں آسمان سرپر اٹھالیتی ہے اور چلاّتی ہے۔ دیکھو یہ نابکار بے حیا بیٹا ماں کی عصمت پر زبان طعن دراز کرتا ہے۔ لامحالہ لوگ ماں کے طرفدار ہوجاتے ہیں اور دکھی بیٹے کو ملامت کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ماں کی فحش کاری کے نظارے سے بیٹے کے دل پر کتنی قیامتیں نازل ہوئیں۔ وہ حقیقت میں مظلوم بیٹا، ماں کے فریب کارانہ واویلا سے ظالم سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہوا۔ جو خلیفہ ثانی سے زخمی ہوکر نکلے اور خلیفہ صاحب نے اور جماعت نے واویلا مچایا کہ دیکھو مرید ہو کر زنا کا الزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ یہی بات ان کی سچائی کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ کوئی مرید مرشد پر الزام نہیں لگاتا۔ جب تک مرشد کی فحش کاریاں عریاں ہوکر اس کے سامنے نہ آجائیں اور اس کے لئے نہ جائے انکار ہو اور نہ راہ فرار۔ میں ان دو حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا مرزاقادیانی کا اپنے مخالفوں سے یہی رویہ تھا۔ کیا وہ ہر فیصلہ کن بات پر حق وصداقت کی خاطر مباہلے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے تھے؟ کیا حضرت مولانا نورالدین کو اگر خدانخواستہ یہ سانحہ پیش آتا تو وہ اس طرح سے گریز کرتے جس طرح نام نہاد موعود بیٹے نے کیا تھا؟ چونکہ خط وکتابت سے معاملہ صاف نہیں ہوا اور مذکورہ بالا حضرات نے مجھے ڈرانے کی سعی کی ہے۔ کشف غطاء کے لئے ساعی نہیں ہوئے۔ ساری خط وکتابت شائع کر رہا ہوں۔ تاکہ قارئین خود فیصلہ فرمالیں۔ میں نے آخری خط میں اشاعت کا ذکر بھی کیا ہے۔ عبدالرحمن! خط نمبر:۱ قرآن کی تضحیک سے رک جائیں؟ مکرم مرزا (عبدالحق سرگودھا)صاحب! آپ کا مضمون بعنوان ’’حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے کارنامے بلحاظ فیض روحانی‘‘