احتساب قادیانیت جلد نمبر 60 |
|
میں نے کیوں بے وجہ تعارف کرادیا ہے۔ مرزامحمود کو غیر کے نطفہ سے بچہ پیدا کرانے کا شوق اپنی بیویوں سے بھی تھا۔ میاں اظہر احمد (اجی) صاحب کی شکل بالکل محمود احمد کے ڈرائیور نذیر احمد سے ملتی ہے۔ رمزشناس اور واقف حال مرزااظہر احمد کو نذیر احمد ڈرائیور کا بچہ ہی کہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ چوہدری عبدالحمید ڈاڈا نے اس کے منہ پر یہ کہہ دیا ’’چل نذیر ڈرائیور کے بیٹے۔‘‘ نذیر احمد ڈرائیور کا بیان بیگم مرزامحمود احمد کی شب عروسی نذیر احمد ڈرائیور کے ساتھ نذیر احمد ڈرائیور گندمی رنگ مضبوط جسامت اور دراز قد کا مالک تھا۔ مرزامحمود احمد کی مجلس بدکاری کا ایک اہم ممبر تھا۔ اس کا بیان ہے کہ جب مرزامحمود احمد ڈاکٹر اسماعیل (مرزامحمود احمد کا ماموں) کی بیٹی کو شادی کر کے گھر لایا تو اس کی پہلی رات میرے ساتھ گزری۔ ڈرائیور بیان کرتا ہے کہ جب میں پہلی رات حجرہ عروسی میں داخل ہوا تو وہ پریشان ہوگئی۔ ویسے تو پہلے سے ہی مرزامحمود کی بدکاریوں سے آشنا تھی۔ لیکن وہ یہ امید نہیں کرتی تھی کہ پہلی رات ہی ایک ڈرائیور کے ساتھ گزارنا پڑے گی۔ پہلا سوال یہ کیا۔ کیا امّ ناصر کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ نذیر نے کہا جو عورت بھی اس چاردیواری میں قدم رکھے گی اس کے ساتھ یہی سلوک ہوگا۔ امّ ناصر اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ ’’کوئی قادیانی میرے جنازے کو ہاتھ نہ لگائے‘‘ بیان داؤد احمد داؤد احمد ابن راجا مدد علی کے کئی بھائی ہیں۔ میں صرف دو کے نام جانتا ہوں۔ میجر محمد احمد۔ میجر الیاس احمد۔ میجر محمد یونس پسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کا یہ بیان ہے کہ داؤد اس کے دوست تھے۔ قادیان میں تو اس نے مرزامحمود احمد کی بدکاری کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ تشکیل پاکستان کے بعدمرزامحمود احمد کی مجلس بدکاری کا ممبر بننے اور ام وسیم کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بارے میں ذکرکیا۔ میجر بیان کرتے ہیں داؤد نے کہا کہ جس رنگ میں طریقے کے ساتھ مرزامحمود احمد کے ساتھ بدکاریوں میں شامل ہوا اب عورت کی صحبت سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ شادی کرنے کا ارادہ ہی نہیں۔ پاکستان کے بننے کے بعدمرزامحمود احمد کے رہائش کدہ کے قریب تک نہیں پھٹکا۔ پھر انگلستان چلے گئے تو ڈاکٹر محمد احمد حامی نے بیان کیا۔ وہ احمدیوں سے اتنی نفرت کرتے ہیں۔ اس نے یہ وصیت کر دی ہے کہ اس کے جنازے کو کوئی قادیانی ہاتھ نہ لگائے۔